قیصر محمود عراق
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ لا زوال کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ کسی کو بلند اور کسی کو پست کر تا ہے ۔ قرآن کریم ہمارے لئے وعظ ہے جو ہم غافل انسانوں کو دنیا کی نیند سے بیداری کا پیغام دیتا ہے ، سوتوں کو جگاتا ہے ، عبرت پذیری کے تمام اسباب سے ہم کو دعوت عمل دیتا ہے ۔ اس اندھیری دنیا میں ہدا یت بن کر تشنہ دل رکھنے والے مومنین و صادقین کے لئے سراسر رحمت ہے ، اہل ایمان کو ہلاکت سے بچانے والی اور عذاب الیم سے محفوظ رکھنے والی اور اللہ کی رضا اور رحمت کی طرف ندائے عام دینے والی کتاب ہے ، جو لوگ اپنے رب کی کتاب یعنی قرآن کریم سے منہ موڑتے ہیں وہ ذرا سو چیں کہ آخر وہ کس کا بائیکاٹ کر تے ہیں َ اور کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر تے ہیں اور کتنے بڑے عذاب کے وہ مستحق ہیں ، ہم میں سے ہر ذی شعور آدمی کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے کہ قرآن ان کے رب ، آقا اور مالک و خالق کا کلام ہے ۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر مسلمان کے گھر اللہ کا یہ قیمتی اور نادر خزانہ قرآن مجید موجود ہے ، حکمت و دانائی کے یہ قیمتی موتی ہر شخص کے پاس موجود ہیں ، لیکن لوگ اس کی ناقدری کر تے ہیں ، اس کی حفاظت نہیں کر تے ، اس کو اپنے سینوں میں محفوظ نہیں رکھتے تا کہ وہ اعلیٰ مراتب اور انعام کے مستحق ہوں ۔ جب کہ دنیا کی معمولی ڈگریوں اور انعامات کی خاطر وہ راتوں رات محنت و مشقت کر کے امتحان میں اعلیٰ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کر نے کی کوشش کر تے ہیں ۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ قرآن اللہ کا معجزبیان ہے ، ہم اسے کبھی کبھار ہی کسی خاص مناسبت سے پڑھتے ہیں ، جبکہ ہم میں سے اعلیٰ و ادنیٰ سب ہی طبقے کے لو گ روزانہ اہتمام کے ساتھ صبح کا اخبار پڑھتے ہیں ، جبکہ وہ جھوٹی اور من گڑھت خبروں سے بھرا ہو تا ہے جس کو پڑھکر دل سیاہ اور ویران ہو جا تا ہے ۔ آج شیطان اہل ایمان کا ایمانی سودا کر نے اور انہیں رب کا ئنات کے حضور ذلیل و رسوا کر نے کے لئے گو ناگوں دلکش اور جاذب عقل و نظر ، اسباب و وسائل انسانی بازار میں لا چکا ہے ۔ یہ شیطانی و سائل و ذرائع اتنے دلکش ، ہوش ربا اور عقل و خرد کو شکار کر نے والے ہیں کہ اچھے سے اچھا تقویٰ شعار اور متدین انسان اپنے دین و ایمان کو دائو پر لگا دیتا ہے ۔ یہ شیطانی ہتھکنڈے اور کچھ نہیں یہی ٹیلی ویژن ، ریڈیو، انٹرنیٹ ، ڈش ، ٹیلی فون، موبائل ، سنیما ، تھیٹر ، اسٹیڈیم ، کرکٹ ، ٹیپ ریکارڈ اور آنکھوں کو خیرہ کر نے والی دور جدید کی نت نئی ایجادات و اختراعات ہیں ۔ غور کر نے کی بات ہے کہ ایسے ماحول میں کیا ہم نے کبھی اپنے گھروں میں قرآن کریم سیکھنے کی جگہ بنائی، کیا ہم نے کبھی مساجد و مدارس میں حفظ قرآن میںمقابلہ آرائی کی، کیا کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان حفظ قرآن اور اس کی تلاوت و تجوید مین مسابقہ کیا ، کیا کبھی ہمارے گھروں میں یہ طریقہ رائج رہا کہ قرآن پہ عمل کر تے ہوں اور اپنے قول و فعل کی صحت پر کسی آیت کو دلیل بنا کر پیش کر تے ہوں، کیا کبھی ایسا ہوا کہ گھر کے تمام افراد نے باہم مل کر قرآن کا اجتماعی مطالعہ کیا ہو؟بلا شبہ قرآن پاک کی کشش کا یہ نتیجہ ہے کہ جو بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھتا ہے ، قرآن کا ہی ہو کر رہ جا تا ہے ، اس لئے قرآن پاک سے دوری کے لئے یہ پرو پیگنڈہ کیا جا تا ہے کہ قرآن کو بغیر عالم کے نہ پڑھیں ، قرآن کی مطالب و مفہوم کو تم سمجھ نہیں سکتے ۔ اس طرح کی باتیں صرف دشمنان اسلام ہی نہیں بلکہ ہمارے بعض مولوی بھی کر تے ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر لوگوں نے قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا تو ان کی قلعی کھُل جا ئے گی ۔ یہ وہ پڑھے لکھے جاہل ہیں ، جو آج کے ابو جہل ہیں جو اپنے بے سر وپا خطابت کے ذریعہ اپنی تہذہب کے گر تے ہو ئے بُت کو بچانے کی ناکام کوشش کر تے ہیں ۔جب کہ قرآن مجید صرف مولویوں اور مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے ، یقینا ًقرآن پاک کا مطالعہ اگر سمجھ کر کیا جائے تو یہ کتاب اپنے پڑھنے والوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے ، چاہے وہ خوا ب غفلت میں پڑا ہوا مسلمان کیوں نہ ہو ۔
حیف صد حیف ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے جس قرآن کا سہارا لینا تھا، اسے چھوڑ کر مطلب پر ست مولویوں کا سہارا لے لیا ۔ اب وہ جس طرح سے ہمیں سمجھاتے ہیں ہم اسی کو صحیح سمجھتے ہو ئے ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اسی پر عمل بھی کر نے لگتے ہیں ۔ ہم لوگوں نے قرآن پاک کو پڑھنا اور سمجھنا چھوڑ دیا۔ قرآن کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اس کی سزا پوری دنیا کے مسلمانوں کو مل رہی ہے اور آج ظلم و ستم کا شکار اگر کوئی ہے تو وہ مسلم ممالک اور مسلمان ہی ہیں ۔ آج کے دو ر میں تو دنیا کی ہر زبان میں قرآن مجید کے تر جمعے ہو چکے ہیں ، اس کو پڑھیں ، سمجھیں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنا دین و ایمان اور عقیدہ درست کریں ۔
Mob: 6291697668
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)