! قرآن اور سائنس کی روشنی میں کائنات کا وجود غور طلب

سید سہیل گیلانی

قرآن مجید ایک آسمانی اور کائنات کی عظیم ترین کتاب ہے جو موجودہ سائنسی حقائق اور استدلال سے بھری ہوئی ہے ۔ اس مقدس کتاب میں کئی ایسے مواضع بھی ہیں جو بعض سائنسی حقائق کی تصدیق کرتے ہیں۔سائنسی تحقیقات میں کائنات کا وجود اور اس کی تشکیل کے عمل پر بڑی توجہ ہے۔ سائنسی جمع کردہ معلومات اور دیگر حقائق ہمیں کائنات کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی سرگرمی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے مطابق کائنات کا آغاز تیزی سے پھیلتے ہوئے غبارے کی طرح ایک نقطے کے طور پر ہوا ( بمطابق بگ بینگ تھیوری) بگ بینگ (Big Bang) دراصل انگریزی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ‘بڑے دھماکے کے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق کائنات کا آغاز ایک دھماکے کے ذریعے ہوا ،جس نے مادہ اور انرژی کو پیدا کیا اور یہ نظریہ کائنات کے پیدائش اور توسیع کی تاریخی تشریح فراہم کرتا ہے۔ اس دھماکے سے ایک نقطہ میں توانائی پیدا ہوئی جو کائنات کو جنم دیا، اس توانائی کی بنا پر کائنات کا مادہ بہت خفیف تھا اور پھر اس نقطے سے پھیلنے لگا۔ اس کے بعد، توانائی کی مقدار بڑھنے سے کشش ثقل کی بجائے دوسری قوتیں کارروائی کرنے لگیں جو مادے کو ایک ساتھ جمع کرتی ہیں اور اس طرح ستارے اور گرہن جیسے اجسام بنتے ہیں۔
بگ بینگ تھیوری جو کائنات کے ارتقاء کو ظاہر کرتی ہے، 1931 میں دریافت ہوئی تھی، لیکن قرآن پاک میں یہ 1400 سال پہلے صحیح طور پر نازل ہو چکا تھا جو کہتا ہے:
جو لوگ منکر ہیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں (اپنی ابتدائی خلقت میں) ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کردیں؟ پھر کیا یہ (اس بات پر) یقین نہیں رکھتے؟( سورۃ الانبیاء )
یہ آیت واقعی موجودہ کائنات کے ابتدائی مراحل کو بیان کرتی ہے جب زمین اور آسمان ایک ہوتے تھے اور پھر انہیں الگ کر دیا گیا۔اس آیت میں عربی لفظ ‘رتھق کا مطلب ہے بند، گھنا ماس۔ اس سے مراد ایک گہری بند ماس ہے جسے ہم کائنات کے ابتدائی لمحات سے جانتے ہیں۔ آسمان و زمین درحقیقت اسی ماس سے کھولے گئے تھے تاکہ کائنات کو اس شکل میں تخلیق کیا جا سکے جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ جب ہم اس آیت میں بیان کا موازنہ بگ بینگ تھیوری سے کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ تاہم، بگ بینگ صرف بیسویں صدی میں متعارف کرایا گیا تھا۔
متعدد سائنسدانوں اور مسلم اسکالرز نے اس آیت کی مختلف تفسیریں کی ہیں۔ ڈاکٹر زغلول النجر، ایک مصری اسکالر، اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اس غیر معمولی بند سے ظاہر ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں وہ ایک آغاز کے ساتھ تخلیق ہے۔ اس پرہیز کے خاکے کو سمجھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز ایک خام جسم سے کیا اور اس کے بعد اس ضروری خطا کو ہرنیا اور دھواں کرنے کا حکم دیا اور اس دھوئیں سے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔
10ویں صدی کے آغاز تک، یہ نظریہ تھا کہ کائنات کی فطرت مستقل ہے، تاہم، ٹیکنالوجی میں جو ترقی آج ہمارے پاس ہے اور اپنے اردگرد کی دنیا کا مشاہدہ اور تحقیق کرنے کی صلاحیت کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کائنات نے درحقیقت آغاز کیا اور اب بھی بڑھ رہی ہے۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں، روسی ماہر طبیعیات(Russian Cosmologist )الیگزینڈر فریڈمین اور بیلجیئم کے ماہرِ کائنات(Belgian Astronomer)جارج لیمیٹری نے نظریاتی طور پر حساب لگایا کہ کائنات مسلسل حرکت اور پھیل رہی ہے۔ ایڈورڈ ہبل پہلا شخص تھا جس نے 1925 میں اس بات کا ٹھوس ثبوت فراہم کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے ، تاہم یہ حقیقت قرآن پاک میں 1400 سال پہلے واضح طور پر بیان کی گئی تھی، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے ۔
اور یہ ہم ہیں جنہوں نے کائنات کو [اپنی تخلیقی] طاقت سے بنایا ہے۔ اور بے شک ہم ہی ہیں جو اسے مسلسل بڑھا رہے ہیں (الذاریات:47-48)۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ہم اسے مسلسل پھیلا رہے ہیں‘‘جو کہ سائنسی مشاہدے سےبالکل ثابت ہے۔اس سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے یہ جانچنا بہت ضروری ہے کہ آیا قرآن واقعی سائنس اور سائنسی نظریات کے تمام پہلوؤں کو سمیٹتا ہے۔ اس تناظر پر غور و فکر کرنا لازم ہے ۔ اللہ پاک ہمارے علم اور عمل میں مزید برکت عطا فرمائے اور مکمل ہدایت سے نوازے۔
مضمون نگارراجپورہ ہندوارہ سے تعلق رکھنے والے ایم ایس سی طالب علم ہیں)
[email protected]