سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام
یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ کالج کے زمانے میں ہمیں William Wordsworth, Samuel Taylor Coleridge, Percy Bysshe Shelley اور دیگر شعراء کا سرسری مطالعہ کرنے کا موقع فراہم ہوا تھا۔ ان شعراء کو پڑھتے ہوئے ہمیں صنعتی انقلاب سے متعلق بھی تھوڑا بہت پڑھنے کا موقع میسر ہوا تھا۔ صنعتی انقلاب سے پہلے the Renaissance اور Humanism کی باریکیوں سے بھی کسی حد تک واقفیت تھی لیکن کیٹس اور دیگر شعراء کی مختلف اصطلاحات کو گہرائی سے سمجھنے کی سہولیات فراہم ہوئیں۔ The Roman Catholic Church کی جگہ جب rationality اور critical thinking نے اپنی کرنیں چار سو پھیلانی شروع کیں تو ہم لوگ بھی نیند کھُل گئی۔برسوں سے زنگ آلود قفل کے منہ کھُلنے لگے اور بھٹی میں تپائی گئی دانائی اور وسعت نظری نے ہمارے اندر بھی تجسّس اور کھوج کے صفات کو جنم دیا۔ Status quo کی دربدری کو چھوڑ کر ہر آن بدلتی ہوئی زندگی کی خار دار وادیوں سے گزرنے لگے۔ پہلے تو راستوں کی کوئی خبر نہ تھی لیکن میں اکیلے ہی چلا تھا جانب منزل ، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا کے مصداق بہت سارے رفیق اور سچے دوست ملے، جن کے ساتھ راستوں کے تکالیف بھی تکلیفیں دکھائی نہیںدیں۔ نغمہ نگار سنتوش آنند صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ تیرا ساتھ ہے تو مجھے کیا کمی ہے، اندھیروں سے بھی مل رہی روشنی ہے۔ یہ شعر ہمارے اس صفر کی ترجمانی کرتا ہے جس سفر کا ذکر مندرجہ بالا سطروں میں کیا گیا ہے۔ اس سفر میں ہمیں کئی ہم سفر ملے۔ کچھ کتابوں کی شکل میں تو کچھ اصلی حالت میں۔ اس سفر کے دوران ہماری ملاقات جون کیٹس کے ساتھ بھی ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں اس عظیم شاعر کو تھوڑا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کی زندگی کے متعلق، خاص کر قدرت کے ساتھ اس کی نزدیکی ہمارے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ Amar Singh College کے ان پرانے کمروں میں جب ہم نے ایک بار Endymion کو انگریزی پروفیسر کی میٹھی آواز میں سننے کا موقع ملا تو دل کی آنکھیں کھل گئیں اور ذہن کے دریچے بھی وا ہونے لگے اور تب سے جب تک ہر روز کھلتے ہی جارہے ہیں۔ سچے پیار میں ڈوبی اور قدرت کی رنگینیوں میں مگن کیٹس نے ہماری دنیا ہی بدل کے رکھ دی۔ ہمارے نصاب میں شامل انگریزی کتاب جس کو کشمیر یونیورسٹی کے اعلیٰ پروفیسرز نے ترتیب دیا تھا جس میں محترمہ Lily Want،Iffat Maqbool اور Nusrat Jan شامل ہیں، نے William Wordsworth کا مختصر خاکہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے ” Reacting against the gaudy and ornate phraseology of neo-classical poets, Wordsworth professed his faith in a simplified poetic diction and recommended the language of common man as the best model for the poet”۔ ان الفاظ میں رومانیت کے سمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ سلیس اور عام فہم زبان میں زندگی کی حقیقتوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔یہاں میں مضمون کی طوالت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیٹس کی ایک نظم کا مختصر جائزہ موجودہ زمانے کے حالات کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کاوش کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک عظیم شاعر Pablo Neruda کی ایک شاہکار نظم ” Keeping Quiet ” کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ “
On the Grasshopper and Cricket ” میں شاعر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کیسے قدرت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر کیسے اس قدرت میں ہر مشکل سے مقابلہ کرنے کی قوت ازل سے ودیعت کی گئی ہے۔ شاعر فرماتے ہیں کہ موسم گرما اور موسم سرما میں زمین یا قدرت کی شاعری ختم نہیں ہوتی ہے۔ موسم گرما میں grasshopper ایسا cooling effect پیدا کرتا ہے کہ جھلسا دینے والی گرمی کی تپش، تپش نہیں دکھائی پڑتی ہے۔ جب سورج آگ برساتا ہے اور لوگ گرمی کی وجہ سے اَدھ مرے ہوجاتے ہیں اُس وقت یہ کیڑا مورچہ سنبھالتے ہوئے لوگوں کے لیے راحت اور مسرت کے مختلف سامان مہیا رکھتا ہے۔ اس طرح قدرت ممتا کی ایک مورتی بن کر ہمارے زخموں کا مداوا کرتی ہے۔ ماں کی طرح اپنا شفیق ہاتھ ہماری چھاتیوں پہ رکھ کر ہماری بے سکونی کے عالم میں سکون فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح کیٹس بھی ہماری ان چھاتیوں پر عرق ِگلاب کے برتن انڈیل دینا چاہتا ہے تاکہ مادیت کی گرمی کی حرارت تھوڑی کم ہوجائے۔ صنعتی انقلاب کی بے لگام زندگی میں کہیں پر ایک موڑ بھی آئے اور ہمارے پیر جو صرف مادیت کی طرف دوڑنے کے عادی ہوگئے ہیں، کچھ مدت کے لئے آرام کریں۔ اسی تناظر میں Pablo Neruda کی نظم ” Keeping Quiet ” کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر موجودہ زمانے کی افراتفری سے تنگ آکر کچھ وقت کے لئے شانتی اور امن کو پانے کی کوششوں پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آج ہم اپنی زندگیوں سے کچھ وقت نکال کر اپنے آپ اور اپنے اردگرد پائی جانے والی چیزوں کا بغور مطالعہ کریں۔ چیزوں کو اپنی حالت پر رہنے دیں اور ہم ایک دوسری کی گردن کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی گردنوں کے محافظ بنیں۔ یہ نظم بھی ہم کیٹس کی نظم کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔
جون کیٹس نظم کے آخری حصے میں موسم سرما کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کیسے اس موسم میں بھی قدرت کی شاعری ختم نہیں ہوتی ہے۔ جب موسم سرما کی منجمند کردینےوالی ٹھنڈ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے، جسے رحمان راہی ؔنے کشمیری میں اور انگریزی میں محترم غلام رسول ملک نے ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے” with the cool of the winter in the marrow of my breast”، یعنی موسم سرما کی ٹھنڈک جسم کے تہہ خانے تک پہنچ گئی ہے، اس وقت بھی قدرت کی چیزیں زندگی کی حرارت کو برقرار رکھتے ہیں۔ ایسا ہی سماں کیٹس بھی اس نظم میں پیدا کرتا ہے۔ اس مایوس کن ماحول میں بھی ایک کیڑا( cricket) ہمارے سرد احساسات کو جلا بخشتے ہوئے ان کو گرم رکھتا ہے، یعنی اپنی سریلی اواز سے وہ مار دینے والی خاموشی کو توڑ دیتا ہے اور ہم سب کو آنے والے طوفان کے لئے کشتیوں کی مرمت کرنے پر اُکساتا ہے۔ اس طرح سے شاعر ہمیں صحیح زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب راہیں معدوم ہوں، کشتیاں ٹوٹی ہوں اور دھار بھی تیز ہوں، اسی وقت کنارہ ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اُسی وقت دل کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے دُکھ اور درد سے لڑنا چاہیے۔ Grasshopper اور cricket جیسی چھوٹی مخلوقات ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کرتی ہیں۔
اس نظم کی آفاقیت کے ساتھ مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا طالب علم انصاف نہیں کرسکتا ہے لیکن کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آج گھر پر بیٹھے بیٹھے کبھی کالج کے دن یاد آتے ہیں تو کچھ یادیں لہروں کی طرح دل سے ٹکراتی ہیں اور دل کے قلم سے ہی میں ان لہروں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری کیا حیثیت ہے کہ John Keats,Lord Byron,P.B.Shelley, Thomas Hardy, S.T. Coleridge وغیرہ لوگ کے عظیم کاموں کے سامنے اپنی جہالت کا اظہار کروں لیکن پھر بھی ایسی حماقت کرتے ہوئے اور ان عظیم لوگوں کی باتوں کو زندہ رکھنے کی خاطر میں بھی علم کے سمندر میں چھلانگ مارتا رہتا ہوں۔ ہر وقت زندہ نکل کر پھر سے اسی سلسلے کو طول دیتا رہتا ہوں اور اب زندگی کے اس موڈ پر پہنچ گیا ہوں کہ لگتا ہے کہ کیٹس جیسے لوگوں کی باتیں ہی اصل باتیں تھیں۔ اس نظم میں ہم سب کو یہ درس ملتا ہے کہ قدرت سے لو لگا کر ہم مر کر بھی جی سکتے ہیں۔ اگر قدرت کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگا جائے تو زندگی فنا سے اوپر اٹھ کر دائمی روپ اختیار کرسکتی ہے۔ کیٹس پچیس سال کی عمر میں ہم سے جدا ہوئے لیکن جدا ہوکے بھی وہ ہم سے جدا نہیں ہوئے ہیں کیونکہ وہ جینے کا ڈھنگ سیکھ گئے تھے اور آج ہم کو جینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اتنے سال بیت گئے ہیں کیٹس کو دنیا چھوڑے ہوئے لیکن پھر بھی وہ اپنے عظیم کاموں کی بدولت زندہ ہیں۔ جب بھی ہم قدرت کا کوئی خوبصورت گیت سنیں گے تب تب ہم کیٹس کو یاد کرکے اپنے دل کو تسلی دیں گے۔ جس نظم کا اس مضمون میں اختصار کے ساتھ کیا گیا، یہ نظم CBSE کی کلاس آٹھویں کی انگریزی کتاب میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اور بھی خوبصورت اور آفاقی نظمیں ہیں لیکن جو گہرائی کیٹس کی نظم میں ہے ،وہ دوسری نظموں میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ قدرت کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور زندگی کو جیتے رہیں۔
(رابطہ۔9103916455) [email protected]