مقصوداحمدضیائی
موت ایک اٹل حقیقت اور فیصلہ خداوندی ہے دنیا میں جو بھی آیا جانے کے لیے آیا ہے باقی رہنے والی ایک خدا کی ذات ہے لیکن کچھ جانے والے دیدہ وری کے ایسے نقوش ثبت کرجاتے ہیں کہ وہ مرکر بھی زندہ رہتے ہیں جن کے سانحہ ارتحال پر دل سے اٹھنے والی ٹھیسیں دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ہیں، مخلصم قاری محمد خان صاحب کا سانحہ بھی اسی نوع کا ہے۔ 1989ء اُس وقت کے مدرسہ اسلامیہ عربیہ ضیاءالعلوم اور آج کے جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ میں تحصیل علم کی غرض سے عاجز نے داخلہ لیا، اس مرکز علمی میں رہ کر تا دم تحریر جن لوگوں کو قریب سے دیکھا بِرتا اور ان میں سے جو اب دارالبقاء کو کوچ کرگئے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا قمرالدین قاسمی، مولانا عبدالمجید قاسمی، مولانا قیام الدین قاسمی، حافظ محمد عباس ضیائی صاحب، مفتی امتیازاحمدضیائی، قاری محمد اقبال شہید، مولوی غلام حسین بھٹی، مولوی عبدالرحمن بھٹی، مولوی بدرالدین نوراللّٰہ مراقدہم خوشبوؤں کے اس سلسلہ کی کڑی تھے ۔قاری محمد خان صاحبؒ سابق مؤذن مرکزی جامع مسجد بگیالاں پونچھ جو بتاریخ 21 جمادی الاول 1447ھ مطابق 13 نومبر 2025ء بروز جمعرات شب دارالفناء کو چھوڑ کر دارالبقاء کو کوچ کرگئے۔ قاری محمد خان صاحبؒ اور مرکزی جامع مسجد بگیالاں ایک زمانے تک لازم و ملزوم رہے بلکہ وہ مسجد بگیالاں کی پہچان تھے۔ لمبی سانس اور خاص لہجے کی قاری صاحب کی اذان سن کر کئی بار خیال آیا کہ ریکارڈ کرلیا جائے مگر یہ کام ان کی زندگی میں نہ ہوسکا، جس کا مجھے قلق رہے گا اور اب وہ منفرد آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے۔
یادش بخیر! ہمارے دور طالب علمی میں قاری محمد خان صاحبؒ قدیم مسجد بگیالاں سے متصل قبلہ کی طرف ایک کمرے میں سادگی کے ساتھ رہتے تھے اور نیچے والا کمرہ ہمارا ہوتا تھا، بچپن سے ہی قریب سے قاری صاحب کو ہم دیکھتے آرہے تھے وہ بہت مخلص شخص تھے ، قاری محمد خان صاحبؒ رسمی طور پر ’’قاری‘‘ نہ تھے۔ انہوں نے کسی مشہور یا غیر مشہور مدرسہ سے سند فراغ حاصل نہ کی تھی ،پارہ عم اور چند پاروں کے حافظ تھے اور بس! وہ باقاعدہ تجوید و قراءت کی بھی سند نہیں رکھتے تھے۔ اذان کی مستقل ذمہ داری اور پرخلوص لہجہ کی بدولت ’’قاری محمد خان‘‘ علاقہ میں ایک باوقار اور پر اعتبار نام بن گیا تھا۔ ان کی دید شنید کے دائرے کے مدارس کے ماحول کا کوئی آدمی جب بھی ’’قاری محمد خان‘‘ سنتا تواس کا دل اس یقین سے بھر جاتا کہ یہ وہی ذات ہے، جس سے اللّٰہ نے محبت کی ہےاور اللّٰہ نے مخلوق کی ایک معتدبہ تعداد میں مشہور کردیا ہےاور اس کے دل میں اس کی محبت ڈال دی ہے۔ میں نے سال ہا سال ضیاءالعلوم میں انھیں جیا اور بِرتا وہ لگ بھگ چالیس سال تک مؤذن رہے۔ اذان ہونے پر جب بھی ہم مسجد پہنچتے تو ان کی زبان ذکراللّٰہ سے تر دیکھتے ان کے ہاتھ میں موٹی دانوں والی خوبصورت سی تسبیح ہوتی قدرت نے ان کو دَم دار آواز بخشی تھی۔ مستی میں ہوتے تو ’’حق ہٗ اللّٰہٗ‘‘ یا پھر اپنی زبان میں مستانہ انداز میں یہ کہتے کہ ’’تیریاں توئی جانیں‘‘قاری صاحب بڑے ہی منسکرالمزاج شخص تھے، جاننے والے جب بھی آپ سے ملتے تو پیار سے ’’باجی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے جب بھی کسی کی ان سے ملاقات ہوتی تو ان کی باچھیں کھل جاتیں۔ وہ سلام میں سبقت کرتے اور اس سے اس کی خبر خیریت دریافت کرنے میں پہل کرتے 24 گھنٹے میں دسیوں بار ان سے آتے جاتے ملاقات ہوجاتی اور ایک آدھ مرتبہ وہ میرے کمرے میں بھی سلام کرلیتے ،ان کے تبسم اور ایک بول سے بھی ایسی حلاوت محسوس ہوتی جس کا ادارک آسان اور اس کا بیان مشکل ہے۔ ان سے ملاقات اس وقت یادگار بن جاتی جب جمعرات کو مولانا قمرالدین قاسمی و مولانا عبدالمجید قاسمی اور قاری محمد خان صاحب عاجز کے کمرے میں اکٹھے ہوجاتے اور یہ عاجز مٹی کے تیل والے اسٹو پر جلدی سے حلوہ تیار کر لیتا اور تینوں بزرگوں کی خدمت میں رکھ دیتا اور اس دوران اپنے بڑوں کی بے تکلفانہ گفتگو کو سننے کا ایک اپنا مزہ ہوتا تھا۔ قصہ طولانی! قاری محمد خان صاحب کا شمار ضیاءالعلوم کے اولیں لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ ان مردانِ باصفاوباوفا میں سے تھے کہ جب ہر طرف سے پتھر پھینکے جا رہے تھے اس وقت وہ چٹان بن کر کھڑے رہے اور دن رات پاسبانی کا فریضہ خلوص و بہادری کے ساتھ انجام دیا۔ قاری صاحب کی ضیاءالعلوم سے مخلصانہ وابستگی اور ترقی کے باب میں قابل قدر تعاون پر یہ شعر بجا طور ان پر صادق آتا ہے کہ
تاریخ گلستاں جو مرتب ہوئی کبھی
دیباچہ بہار کا عنوان رہیں گے ہم
لگ بھگ دس بارہ سال سے وہ گھر پر ہی قیام پزیر تھے بڑھاپے اور بعض عوارض کے باوجود مسجد بگیالاں میں نماز جمعہ ادا کرتے جاننے والے ذوق و شوق سے ملتے، دونوں گھنٹوں میں مدت سے تکلیف تھی اس لیے دو لاٹھیوں کے سہارے چلنا پھرنا ہوتا تھا ۔میرے والد منشی محمد صادق صاحب سابق سفیر جامعہ ہذا قاری صاحب کے گاؤں میں عشر کی وصولیابی کے سلسلے میں جایا کرتے تو قاری صاحب کے گھر کھانے کا نظم رہتا گھر کے سبھی لوگ بخوشی تواضع کرتے ،جس کا تذکرہ والد صاحب بطور خاص ہم سے کرتے رہتے ان کی زندگی کا بڑا حصہ اذان دینے کے کام میں صرف ہوا وقت کے ساتھ ساتھ ان کے نیک نامی و نیک کامی میں اضافہ ہوتا گیا اور اسی سعادت مندانہ حالت میں انہوں نے وفات پائی۔ مرحوم بڑے خوش انجام رہے نماز جنازہ بروز جمعہ دن کے ساڑھے بارہ بجے آبائی گاؤں کھنیتر میں ادا کی گئی نماز جنازہ قاری جمیل احمد ضیائی صاحب مدرس جامعہ ضیاءالعلوم نے پڑھائی اور ہزاروں کی تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ان کی رحلت کے بعد ہر وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہم نے کیا شخص کھویا ہے ،کم از کم میں قاری خان صاحب کو بے حد یاد کرتا ہوں۔ ان سے گفتگو ،ان کے ساتھ ہنسنا بطور خاص پرانی باتیں یاد کرنا۔ قاری صاحب یادداشت کے بڑے دھنی تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں کی باتیں ان کو یاد رہتیں۔ وہ پرانی رسومات کا تذکرہ بہت مزے لے لے کر کیا کرتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی محبت کی برکت سے عاجز کو بھی حسن خاتمہ کی سعادت سے سرفراز کرےاور ان کے پسماندگان اور محبیین کو صبر و جزا سے نوازے۔ آمین