بلال فرقانی
سرینگر//سجاد غنی لون کا تعلق ایک معروف سیاسی خانوادے سے ہے، جو شمالی کشمیر میں گزشتہ 6 دہائیوں سے کافی سرگرم رہا ہے۔ 58 برس کے سجاد لون ماضی میں اپنے ہی والد خواجہ عبدالغنی لون کی طرح جموں کشمیرمیں کابینہ درجے کے وزیر بھی رہے ہیں۔ماضی میں سجاد غنی لون نے پارلیمانی انتخابات میں شرکت کی تاہم فاتح ہونے کی تمنا انکے دل میں ہی رہی۔ پیپلز کانفرنس کے موجودہ سربراہ لون دوسری مرتبہ شمالی کشمیر کی پارلیمانی نشست سے الیکشن میں شرکت کرکے اپنی سیاسی قسمت آزما رہے ہیں۔
سفر حیات و خانوادہ
سجاد غنی لون کا تولد شمالی کشمیر کے درد ہرے کپوارہ میں9دسمبر1966کو شمالی کشمیر کے با اثر سیاسی خاندان میں مرحوم خواجہ عبدالغنی لون کے گھر میں ہوا۔ مرحوم عبدالغنی لون 1967سے لیکر1987تک4مرتبہ قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے جن میں2بار کانگریس جبکہ ایک ایک بار جنتا دل اور پیپلز کانفرنس کی ٹکت پر انہوں نے لنگیٹ اور کرناہ کے اسمبلی حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔1969میں مرحوم لون کو پہلے بجلی اور آبپاشی کا وزیر مملکت بنایا گیا اور بعد میں انہیں طبی تعلیم کے وزیر کے طور پر ترقی دی گئی۔لون نے1978میں پیپلز کانفرنس کی داغ بیل ڈال دی ۔خواجہ عبدالغنی لون کو 21مئی2002کونامعلوم بندوق برداروں نے ایک ریلی کے دوران گولیاں مار کر جاں بحق کیا۔ سجاد غنی لون نو عمری سے ہی سیاسی ماحول میں پل کرجواں ہوئے اور سیاست کے دائو پیچ و نشیب وفراز سے واقف ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر کے برن ہال سکول میں حاصل کی اور1982میں ہی اسی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جبکہ1984میں ڈی اے وی سکول سرینگر سے11ویں اور1985میں امر سنگھ کالج سرینگر سے12ویں کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ چلے گئے اور1989میں یونیورسٹی آف ویلز کے کالج آف کارڈف سے کامرس میں اکانو مکس میں بی ایس سی آنرس ڈگری حاصل کی۔ سجادغنی لون Achievable Nationhood(قابل حصول وطنیت )کے مصنف بھی ہیں، جس میں اقتصادی طور پر بغیر سرحد جموں و کشمیر کے بارے میں نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے اور جس میں جموںوکشمیر کاانتظام ہندوستان اور پاکستان کے ذریعے مشترکہ طور پر سنبھالنے کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔لون اس وقت سرینگر کے صنعت نگر علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
سیاسی میدان سے
سجاد لون نے 2002 میں اپنے والد عبدالغنی لون کی وفات کے بعد اس وقت متحرک سیاست میں شمولیت اختیار کی جب وہ ان کی جگہ پی سی چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔سجاد لون نے پیپلز کانفرنس کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد علیحدگی پسند سیاست میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں 2009میں حریت سے علیحدگی اختیار کر لی۔لون پر حریت نے الیکشن میں در پردہ امیدواروں کو کھڑا کرنے کا الزام عائد کیا جس کی سجاد لون نے تردید کی۔لون نے آزاد امیدوار کے طور پر بارہمولہ لوک سبھا حلقہ سے 2009کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا، لیکن وہ جیت نہیں سکے اور محض 65,403ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ نیشنل کانفرنس کے شریف الدین شارق نے2لاکھ3ہزار22اور پی ڈی پی کے محمد دلاو میر نے ایک لاکھ38ہزار208ووٹ حاصل کئے۔ سجاد غنی لون نے اس دوران2014کے اسمبلی انتخابات میں ہندوارہ سے پیپلز کانفرنس کی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑکراپنے نزدیکی مد مقابل نیشنل کانفرنس کے چودھری محمد رمضان کو6423ووٹوں سے شکست دی۔لون نے 29ہزار355جبکہ چودھری نے23ہزار932ووٹ حاصل کئے۔پی ڈی پی،بھاجپا مخلوط حکومت میں سجاد غنی لون کو مارچ2015میں پشو پالن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تاہم سال2016میں لون کو سماجی بہبود کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔لون کو5اگست2019کو دفعہ370کی تنسیخ کے ساتھ ہی حراست میں لیا گیا اور قریب ایک سال کے بعد جولائی2020میں رہا کیا گیا۔اس سے قبل دفعہ370کے دفاع کیلئے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ،سی پی آئی ایم اورپیپلز کانفرنس سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تشکیل شدہ پیپلز الائنس فارگپکار ڈیکلریشن( عوامی اتحاد برائے گپکار اعلامیہ) میں ترجمان مقرر کیا گیا،تاہم رہائی کے بعد’پی اے جی ڈی‘ کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر لون نے جنوری2021میں اس پلیٹ فارم سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ سجاد غنی لون نے پارلیمانی انتخابات کیلئے ایک مرتبہ پھر شمالی کشمیر کی نشست سے بطور امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے ہیں،جہاں انکا مقابلہ براہ راست نیشنل کانفرنس کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور نظر بند سیاست دان انجینئر رشید سے ہوگا۔
جائیداد
کاغذات نامزدگی کے ساتھ پیش کئے گئے بیان حلفی کے مطابق سجاد غنی لون20کروڑ60لاکھ66ہزار730روپے کی جائیداد کے مالک ہیں جبکہ ان پر8کرور44لاکھ26ہزار484روپے کا قرضہ بھی ہے۔ ان کے پاس اس وقت اہلیہ سمیت2لاکھ30ہزار روپے دردست ہیںجبکہ سجاد اوران پر منحصر کنبے کے افراد کے بنک کھاتوں میں27لاکھ31ہزار257روپے ہیں۔سجاد غنی لون کے پاس36لاکھ60ہزار روپے کی4گاڑیاں بھی ہیں جن میں ایک سکارپیو،2بلینو گاڑیاں اور ایک ایکو بھی شامل ہے۔ انکے پاس9لاکھ45ہزار روپے جبکہ انکی اہلیہ کے پاس54لاکھ روپے کے طلائی کے زیورات ہیں۔ سجاد غنی لون کے پاس10لاکھ روپے کی گھریلو اشیاء کے علاوہ شراکت داری میںراولپورہ سرینگر میں15کروڑ روپے مالیت کا کاروباری کمپلکس بھی ہے۔وہ ہندوارہ میں4کروڑ20لاکھ روپے مالیت کےرہائشی مکان کے مالک بھی ہیں۔لون مختلف مالیاتی اداروں سے 8کروڑ 44لاکھ 26ہزار 484روپے کے مقروض بھی ہیں۔