یاسین رشید میر
اندھی تقلید اور جماعتوں کی شخص پرستی کا رجحان آج کے معاشرے میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ انسان ہمیشہ سے کسی نہ کسی نظریے، مذہب، یا جماعت سے وابستہ رہنے کا خواہش مند رہا ہے تاکہ اسے زندگی کے مسائل کے حل اور فکری استحکام کا احساس ہو۔ مگر جب یہ وابستگی اس حد تک پہنچ جائے کہ فرد اپنی عقل و شعور کو بالکل ترک کر دے اور کسی نظریے یا جماعت کی اندھی پیروی شروع کر دے، تو یہ فکری غلامی کا راستہ کھول دیتی ہے۔ اس رویے کو عام طور پر ’’شخص پرستی‘‘ یا اندھی تقلید کہا جاتا ہے، جس میں فرد اپنی جماعت، نظریہ یا مذہبی پیشوا کو بغیر کسی سوال یا تحقیق کے حرفِ آخر مانتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف افراد کی فکری صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
اندھی تقلید کا یہ رجحان صرف مذہبی حلقوں تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی، اور ثقافتی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔ لوگ اپنے سیاسی رہنماؤں کی اندھی تقلید کرتے ہیں، بغیر یہ دیکھے کہ وہ کس حد تک حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں یا عوام کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اسی طرح مذہبی حلقوں میں لوگ اپنے پیشواؤں کے فتوے اور نظریات کو بغیر تحقیق قبول کر لیتے ہیں، چاہے وہ دین کی اصل تعلیمات کے منافی ہوں۔ اس رویے کے نتیجے میں معاشرہ فکری جمود اور تعصب کا شکار ہو جاتا ہے، اور افراد میں تحقیق و جستجو کی روح ختم ہو جاتی ہے۔
فکری جمود کا یہ رجحان صرف عوام تک محدود نہیں، بلکہ اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے باوجود، وہ اپنی جماعت یا نظریے کی اندھی پیروی کرتے ہیں اور دوسروں کی رائے کو مسترد کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے افراد اپنی جماعت کو اس حد تک تقدس کا درجہ دیتے ہیں کہ وہ اسے غلط یا غیر معقول قرار دینے سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف دراصل فکری جمود اور غلامی کی علامت ہے، جہاں فرد
اپنی فکری آزادی کو قربان کر کے ایک مخصوص جماعت یا نظریے کا غلام بن جاتا ہے۔
اندھی تقلید اور جماعتوں کی شخص پرستی کا یہ رجحان ہمارے معاشرے میں فکری اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔ جب لوگ اپنے نظریات یا جماعتوں کو حرفِ آخر مان لیتے ہیں اور دوسروں کی رائے یا اختلاف کو رد کر دیتے ہیں، تو یہ معاشرتی ہم آہنگی اور مکالمے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ، جہاں مختلف رائے اور نظریات کو برداشت نہ کیا جائے، فکری جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد میں سوالات کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایک محدود سوچ کے دائرے میں قید ہو جاتے ہیں۔
اس رویے کی ایک بڑی مثال سیاسی جماعتوں میں نظر آتی ہے۔ اکثر افراد اپنے سیاسی رہنماؤں کی باتوں کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ ان کے ہر بیان، اقدام یا پالیسی کو درست سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ حقائق کے برعکس ہو۔ یہ رویہ فکری غلامی کا باعث بنتا ہے، جہاں فرد اپنی سوچ کو محدود کر لیتا ہے اور کسی نئی یا مختلف سوچ کو قبول کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے اور سیاسی تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔
مذہبی حلقوں میں بھی یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں کی باتوں کو بلا تحقیق قبول کرتے ہیں اور ان کی اندھی پیروی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کی صورت میں نکلتا ہے، جہاں ہر فرقہ اپنے نظریات کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ یہ فکری جمود کا ایک اور مظہر ہے، جو معاشرے میں تقسیم اور اختلافات کو بڑھاتا ہے۔
اندھی تقلید اور شخص پرستی کے اس رویے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد میں تحقیق، سوالات کرنے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایک فکری طور پر آزاد اور ترقی یافتہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں مختلف نظریات اور رائے کو سننے، سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ تحقیق اور سوالات کے ذریعے فرد اپنی فکری صلاحیتوں کو وسیع کرتا ہے اور ایک وسیع النظر اور متوازن سوچ کا مالک بنتا ہے۔
اندھی تقلید سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعتوں اور نظریات کو چیلنج کرنے کی جرأت پیدا کریں۔ یہ چیلنج کسی نظریے یا جماعت کو رد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسے بہتر سمجھنے اور اسے حقائق کے مطابق ڈھالنے کے لیے ضروری ہے۔ تحقیق اور سوالات کے ذریعے ہم اپنی سوچ کو بہتر بنا سکتے ہیں اور معاشرے کو فکری غلامی سے نجات دلانے میں مدد کر سکتے ہیں۔
اندھی تقلید کا خاتمہ صرف افراد کی فکری ترقی کے لیے ضروری نہیں بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ ایک معاشرہ، جو تحقیق اور مکالمے پر یقین رکھتا ہو، فکری طور پر آزاد ہوتا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ معاشرے جو اندھی تقلید اور فکری جمود کا شکار ہوتے ہیں، ترقی کے بجائے زوال کی طرف جاتے ہیں۔
اس مضمون کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ اندھی تقلید اورشخص پرستی سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی عقل و شعور کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں تحقیق، سوالات اور مکالمے کے ذریعے اپنی سوچ کو بہتر بنانا ہوگا۔ اسی طرح ہم ایک فکری طور پر آزاد اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں، جو فکری غلامی اور جمود سے آزاد ہو۔
رابطہ۔9797842030
[email protected]