علامہ کے نزدیک اسلامی نظام حیات ایک مکمل عمرانی نظام ہے جو حریّت اور مساوات کی اعلیٰ ستونوں پر کھڑا ہے لہٰذا اس میں تمام بنی نوع انسان کے لئے یکساں حقوق حاصل ہیں ۔ اسی لئے اس میں ہر مذہب و ملل کے لوگ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۲۳ء کو ایک طویل خط سید محمد سعید الدین جعفری کو رقم کرتے ہوئے علامہ ایک متشکک نوجوان ( منظر علی) کے بعض سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلام کی تفسیر نو کے مسئلہ اور متحدہ قومیت ، وطنیت اور اسلامی عالمگیریت کے بارے میں مدلل طور پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں کہ :’’ میرے نزدیک اسلام نوع انسان کو اقوام کی جغرافیائی حدود سے بالاتر کرنے اور نسل و قومیت کی مصنوعی مگر ارتقاء انسانی کے ابتدائی مراحل میں مقید امتیازا کو مٹانے کا ایک عملی ذریعہ ہے ۔ اسی وجہ سے اور مذاہب ( یعنی مسیحیت، بدھ ازم وغیرہ) سے زیادہ کامیاب رہا ہے ۔ آپ Pan Islamکو ایک پولیٹیکل یا قومی تحریک تصور کرتے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ ایک طریق چند اقوام انسانی کو جمع کرنے اور ان کو ایک مرکز پر لانے کا ہے ۔۔۔۔ پس اسلام ایک قدم ہے نوح ِانسانی کے اتحاد کی طرف ، یہ ایک سوشل نظام ہے جو حریت و مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے ۔ پس جو کچھ میں اسلام کے متعلق لکھتا ہوں اس سے میری غرض خدمتِ بنی نوع ہے اور کچھ نہیں ۔ اور میرے نزدیک عملی نقطۂ نگاہ سے صرف اسلام ہی Humanitarian IdealکوAchieve کرنے کا ایک کارگر ذریعہ ہے ۔ باقی ذرائع محض فلسفہ ہیں ۔ خوشنما ضرور ہیں مگر ناقابلِ عمل، مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ وہ (متشکک نوجوان منظر علی) یہ سمجھتے ہیں کہ خالص اسلامی حقائق پر لکھنے اور ان کو نمایاں کرنے سے ہندوستان کی اقوام میں باہمی عناد بڑھتا ہے ۔ اس بات میں میں آپ سے متفق ہوں کہ مسلمان دنیا کے لئے سراپا شفقت ہے مگر اس اخلاقی انقلاب کو حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اسلام اپنی اصلی روشنی میں پیش کیا جائے۔ میرا ذاتی طریق یہی ہے کہ میں دنیا کی تمام مذہبی تحریکوں کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں گو یہ احترام مجھے ایسی تنقید سے باز نہیں رکھ سکتا ہے جس کی بنا دیانت پر ہو اور جس میں سوائے خلوص کے اور کچھ نہ ہو۔ غرض کہ میرا عقیدہ یہ ہے اور یہ عقیدہ محض خاندانی تربیت اور ماحول کے اثرات کا نتیجہ نہیں بلکہ بیس سال کے نہایت آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے کہ اس وقت اقوام انسانی کیلئے سب سے بڑی نعمت اسلام ہے اور جو شخص مسلمان کہلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ قومی تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ خالصتاً لِلّٰہِ اپنی زندگی میں ایک عملی انقلاب پیدا کرے اور اگر دماغی قوت رکھتا ہے تو اپنی بساط کے مطابق اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرے تاکہ نوع انسانی قدیم توہمات سے نجات پائے‘‘۔اس طرح سے اسلامی نظام رحمت میں ہر حیثیت سے اخلاق و آداب اور تہذیب و شائستگی کی اعلیٰ مثالیں موجود ہیں جو اس بہترین نظریۂ حیات کی برتری ثابت کرنے کے لئے کافی و شافی ہیں ۔ لہٰذا علامہ کے نزدیک اسلام میں مملکت وحدت آفرینی کی کوشش اور روحانیت کو عملی جامہ پہنانے کا ایک نہایت ہی کارگر وسیلہ ہے ۔ انہیں اس حقیقت پر ایمان کامل ہے کہ اسلام نے ہی رسول رحمت ﷺ کے ذریعے توحید کامل کا نہایت ہی واضح تصور پیش کیا تاکہ اقوام عالم کے امراض کا علاج ہو سکے۔
عہد حاضر میں مغربی استعماری طاقتوں نے جارح بن کر اور خطرناک اخلاقی پستی میں گر کر ہر چہار طرف سے کمزور اقوام کو بزورِ طاقت اپنا مطیع اور محکوم بنایا ہوا ہے ۔ استعماری طاقتوں نے جہاں ان مجبور و محکوم اقوام کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حیثیت کو تہہ و بالا کر کر دیا ہے وہاں اُن کی معاشرتی اقدار اور اُن کے ملی تشخص (Identity)کو بھی ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ہے ۔ موجودہ امریکی اور دیگر جارح قوتیں آجکل ایک طرف عالمی امن کی دہائیاں دیتے ہوئے دنیا میں امن و امان قائم کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں اور دوسری طرف مختلف کمزور اقوام بالخصوص مسلم بلاک کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے ہر طریقۂ استبداد کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس طرح وہ پردۂ تہذیب میں ہی اقوامِ عالم کی غارت گری اور آدم کُشی کے بھیانک جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ان منصوبہ بندیوں کا مشاہدہ کر کے علامہ اقبال کی وہ پیشن گوئی حرف بحرف آج صحیح ثابت ہو رہی ہے جو انھوں نے اپنے دور میں اطالوی حکمران مسولینی ( ۱۸۸۳ء – ۱۹۴۵ء ) کے اخلاق سوز طرز عمل کو دیکھ کر کی تھی،جس نے ابی سینا اور اسپین پر حملہ کیا اور پھر ۱۹۴۰ء میں ہٹلر کی حمایت میں جنگ عظیم دوم میں شرکت کر کے خون ناحق بہانے میں پیش پیش رہا۔ اس کے اس اخلاق سوز طرز عمل کو دیکھ کر علامہ نے اُسی کی زبانی جس طرح دیگر جارح اقوام کے لئے یہ پیغام دیا تھا وہی پیغام آج عملاً پردۂ تہذیب کے پُر فریب نعرے میں یورپی بلاک بالخصوص امریکہ یوں پیش کر رہا ہے ؎
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقان! تم نے لوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج
اسی لئے علامہ اقبال متذکرہ بالا خود ساختہ نظامِ حیات کے مقابلے میں اسلام کے نظام عدل و انصاف کا تصور پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی اساس اخلاق عالیہ پر منحصر ہے یورپی یا کوئی اور تہذیب و تمدن اس دولت سے یکسر محروم ہے ۔ اسی لئے اس عصری عالمی تہذیب میں اعلیٰ انسانی اقدار ( Human Values)ناپید ہیں ۔ علامہ اقبال کے نزدیک اسلام کا فلسفۂ اخلاق پوری نوع انسانی کی بقاء کا ضامن ہے کیونکہ اسلام تمام نوع انسان کو اللہ کا کنبہ تصور کرتا ہے ۔ رسول رحمت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’ اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ بھی ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بنا ہے ۔‘‘
علامہ اقبال کے نزدیک تفریق ملّل یورپی افرنگی اور دیگر غیر اسلامی اقوام کی اختراعات ہیں جب کہ اسلام میں سرے سے ہی اس تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ؎
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود ہے فقط ملّت آدم
مکّے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
لہٰذا عہد حاضر میں واقعی اگر دنیا میں جہالت ، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور اخلاق سوزی کا خاتمہ کرنا ہے اور انسانی بھائی چارے کی بنیاد پر کوئی نظام حیات متعارف کرانا ہے تو ہمیں پھر اپنی بین الاقوامی حکمت عملی کا رشتہ یقیناً علامہ اقبال کے اسلامی تصورات پر مبنی اصولوں سے جوڑنا ہو گا جس میں عالم انسانیت کے لئے سچے معنوں میں امن، راحت اطمنان اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تمام عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔ علامہ اقبال بھی ہمیں اسی اعلیٰ اخلاقی معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے یہ پیغام دیتے ہیں ؎
تاخلافت کی فضا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
رابطہ: اینڈکارڈی نیٹر اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچرل اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی
(ختم شد)