سرینگر// شہر کے لالچوک میں90کی دہائی کے طرز پر راکٹ لانچروں اور دیگر جدید ہتھیاروںسے لیس فورسز اور ٹاسک پولیس اہلکاروں نے محاصرہ کر کے ہوٹلوں اور تجارتی کمپلیکسوں کی تلاشی لی۔ تاہم آئی جی کشمیر کا کہنا ہے کہ کوئی تلاشی نہیں لی گئی جبکہ سی آر پی ایف نے تصدیق کی کہ عسکریت پسندوں کے نقل و حرکت کے بارے میں خفیہ رپورٹوں کی بنیاد پر تلاشیاں لی گئیں۔ سرینگر کے لالچوک میں سنیچر کو قبل از دوپہر اس وقت مصروف اور معروف ترین بازار میں رفتار تھم گئی جب اچانک جدید ہتھیاروں سے لیس سی آر پی ایف اور پولیس آپریشن گروپ کے اہلکار نمودار ہوئے۔راکٹ لانچروں سے لیس فورسز اہلکاروں کی طرف سے لالچوک میں ڈھیرہ ڈالنے کی وجہ سے ہر ایک آنکھ ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔پولیس ٹاسک فورس وفورسز اہلکاروں نے گھنٹہ گھر کے نزدیک راہگیروں کی جامہ تلاشی لی جبکہ کئی گاڑیوں کی باریک بینی سے چیکنگ کی گئی ۔لالچوک میں فورسز اور پولیس کے خصوصی آپریشن گروپ سے وابستہ اہلکاروں کے بھاری جمائو کے نتیجے میں لال چوک اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود راہگیر اور تاجر حیرت میں پڑگئے ۔عینی شاہدین نے بتایا کہ کورٹ روڑ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بھی راہگیروں کی جامہ تلاشی لی گئی،تاہم کسی بھی شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ لالچوک میں قریب9ماہ کے بعد ایک مرتبہ پھر محاصرے اور تلاشیوں کا سلسلہ شرع کیا گیا جبکہ اس سے قبل گزشتہ برس ستمبر میں ایجی ٹیشن کے دوران فوج،فورسز اور پولیس نے مشترکہ طور پر لالچوک کومحاصرے میں لیکر تلاشیوں کا آپریشن شروع کیا تھا۔اس دوران فورسز اور پولیس اہلکاروں نے کورٹ روڑ بند تک مارچ کیا اور کئی ہوٹلوں،عمارتوں اور دیگر جگہوں کی باریک بینی سے تلاشیاں لی۔یہ سلسلہ تقریبا ً ایک گھنٹہ تک جاری رہا ،جس دوران فورسز اہلکار لالچوک میں راکٹ لانچر ہاتھوں میں اٹھائے بھی دیکھے گئے ۔ان تمام مناظر کو دیکھ کر لالچوک اور اسکے گرد ونواح میں سرا سیمگی پھیل گئی ۔اعجاز احمد نامی ایک دکاندار نے بتایا کہ ابتدائی طور پر فورسز نے کئی عمارتوں پر مورچہ بھی سنبھالا جس کی وجہ سے وہ خوف میں مبتلا ہوگئے۔گھنٹہ گھر کے نزدیک پٹری پر سامان فروخت کرنے والے ایک دکاندار جان محمد نے بتایا کہ قریب12بجے فورسز اور ٹاسک فورس لالچوک میں نمودار ہوئے اور عمارتوں کی تلاشی لینے کی کارروائی شروع کی۔انہوں نے بتایا کہ ابھی ہم کچھ سمجھ ہی پار ہے تھے کہ راہگیر افراتفری کے ماحول میں محفوظ مقامات کی طرف دورنے لگے،اور ایسا لگا کی شاید لالچوک میں کوئی معرکہ آرائی شروع ہونے والی ہو۔ پلیڈیم کے سامنے ایک دکان پر کام کر رہے سیلز مین نے کہا کہ اچانک کیسپر گاڑی کے پہنچنے سے انہیں ایسے خدشات ہوئے کہ شاید ابھی جھڑپ شروع ہونے والی ہے۔اس موقعہ پر سڑک پر ٹریفک کی نقل و حرکت بھی بند ہوئی جبکہ ہر طرف تنائو اور کشیدگی کا ماحول نظر آنے لگا۔کئی دکانداروں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہم سامان کو اکھٹا کر کے دکانوں کو مقفل کرنے والے ہی تھے کہ اچانک صورتحال معمول پر آگئی،اور قریب12بجکر55منٹ پر فورسز اور پولیس نے آپریشن کو ختم کیا۔ ریاستی پولیس کے انسپکٹر جنرل کشمیر زون منیر احمد خان نے تلاشیوں اورمحاصرے کے آپریشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معمول کی گشت تھی۔انہوں نے کہا ’’ میں نے اپنے اہلکاروں کو ہدایت دی کہ وہ چہل قدمی کریں کیونکہ مجھے یہ لگا کہ وہ سستی محسوس کر رہے ہیں‘‘۔تاہم سی آر پی ایف ترجمان راجیش یادو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ عسکریت پسندوں کی خبر ملنے کے بعد علاقے کو محاصرے میں لیا گیا۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا فورسز کا فدائین مخالف دستہ اور پولیس کے خصوصی آپریشن گروپ نے مشترکہ طور پر تلاشی لی۔راجیش یاد ونے کہا’’ ہمیں علاقے میں جنگجوئوں کے چھپے رہنے کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں تھیں،اور بعد میں تلاشیوں کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔اس دوران پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ پولیس تھانے کوٹھی باغ کو بھی اس بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔