ہم اکثر اپنے دوستوں بھائیوں کی سادگیوں پر ہنستے رہتے ہیں ۔اس کے سوا اور کچھ ہمارے اختیار میں ہے بھی نہیں۔ ا س وقت مسلمان اپنے زوال آمادگی کے جس اسٹیج پر پوری دنیامیں کھڑے ہیں، وہاں ان سے حماقتوں اور کج عقلیوں کی ہی توقع رکھی جا سکتی ہے ۔ یہ صرف وطن عزیز کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ عجم ہو یا عرب،شیعہ ہو یا سنی فی الوقت مسلمانوں کا ہر فرقہ، ہر طبقہ ہر ملک اور ہرسماج کسی نہ کسی مصیبت میں سرتاپا مبتلا کراہ رہا ہے۔ اس کے لئے خاص طور آسمان سے آفتیں برس رہی ہیں اور زمین سے شامتیں سے اُگل رہی ہیں ۔ا سی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ ممبئی کے ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ حیدر آباد کے دو نادان دوستوں نے جنوبی ہند کی اداکارہ پریا پرکاش کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین خدا کی درخواست داخل کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو اخبارات کی خبریں عموماًانگریزی اخبارات یا خبر رساں ایجنسیوں کا ترجمہ شدہ ہوتی ہیں ۔اردو اخبارات کے مترجمین عموماً ماہر فن نہیں ہوتے بلکہ وہ ترجمے کے نام پر تکے ّلگاتے ہیںکہ خبر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ممکن ہے اس خبر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس میں مذکورہ اداکارہ کے آنکھیں مٹکانے اور آنکھ مارنے کو’’ اسلام کے خلاف‘‘ ایکشن کہا گیا ہے۔عذرداری میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ اداکارہ کے گانے میں قابل اعتراض منظر شامل ہے ۔واضح رہے کہ یہ اداکارہ فلم میں مسلم لڑکی کا رول ادا کر رہی ہے۔ خبر کے حوالے سے ہمیں دو باتیں ممکن لگتی ہیں:ایک یہ کہ غلط ترجمے نے خبرکوکچھ کا کچھ بنا دیا ہو ۔دوسرا یہ کہ حیدر آباد کے نادان دوستوں نے شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی مضحکہ خیزی کی ہو کہ ایک مضحکہ خیز خبر بن گئی ہے۔ اول تو ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ فلمی اداکارہ کا آنکھیں مٹکانے یا آنکھ مارنے سے’’توہین خدا‘‘ کہاں سے ہوگئی کیونکہ اداکاروں کا یہ پیشہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سنیما بینوں کی نظر میںآ جائیں چاہے اس کے لئے اپنے جسم کی نمائش بھی کر ناپڑے یا کوئی خلاف اخلاق کام کر ناپڑے ۔ پھر بھی اگر بالفرض اس منظر سے’’ توہین‘‘ کا پہلو نکلتا ہے تو ہم نام کے مسلمان آج جو کچھ کر رہے ہیں کیااس سے توہینِ مذہب نہیں ہوتی ہے؟کیا مسلمان اداکارائیں فلموں میں اس سے زیادہ بے شرمی کے رول ادا نہیں کرر ہی ہیں ؟کیا مسلمان سود کھا اور کھلا نہیں رہے ہیں جس کے تعلق سے اللہ نے قرآن میں اعلان جنگ فرمایا ہے؟کیا مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کر رہے ہیںجس کی شدید ممانعت کلام اللہ میںوارد ہوئی ہے ؟دور کیوں جائیے فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اداکار ( یوسف خان) جو کہ خیر سے مسلمان ہیں اور جنہیں ٹریجڈی کنگ اور اداکاری کی اکیڈمی بھی کہا گیا ہے ، جنہیں لوگ دلیپ کمار کے نام سے جانتے ہیں، کیا انہوںنے بہ حیثیت اداکار فلموں میں بتوں کی پوجا اور بھجن نہیںگائے ہیں؟یہی کچھ اُن کے قریبی دوست اور نظام حیدرآباد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے’ اجیت‘ (اصل نام حامد علی خان) بھی فلموں میں اداکر تے رہے ہیں ۔ کھراسچ یہ ہے جو برسوں پہلے سلمان خان کے باپ سلیم خان نے ممبئی کے اخبار ’’اردو ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’آپ ہم فلم والوں کو مسلمان سمجھتے کیوں ہو،ہم تو ناچنے گانے والے لوگ ہیں‘‘۔ہمارا سوال یہ ہے کہ جب یہ سب برسوں سے ہو رہا ہے تو پھر اب کیا ہو گیاجو حیدرآباد کے منچلوں نے ایک غیر مسلم اداکارہ کے کسی شارٹ پر مقدمہ داغ کر راتوں رات اس کو شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا اور ساتھ میں ملت کی مزیدسبکی کا سامان پیداکر دیا؟ نیتوں کا حال تواللہ جانے ، ہمیں اس غیر ضروری حرکت پر سستی شہرت کے حصول کے سوا اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے ڈائرکٹر جو کہ مسلمان ہیں ، اپنی کچھ الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔ مہاشئے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو دہائیوں سے کیرالہ کی شادیوں میں ہورہا ہے ۔وہ گانا بھی کئی دہائیوں سے گایا جا رہا ہے ۔اب ایسا کیا ہوگیا؟دراصل تو ہین مذہب کا شور مچانے والوں نے یہ اقدام اس لئے کیا کہ ایک ہندو لڑکی نے مسلمان بن کر ہمارا’’ مذاق‘‘ اُڑا یا ہے ۔ بس یہی بات یارلوگو ںکو بری لگ گئی۔اگر صورت حال اس کے بر عکس ہوتی تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔بہت ممکن ہے انہوں نے یہ کارنامہ اپنے ہمجولیوں کے درمیان ’’کالر ٹائٹ‘‘کرنے کی خاطر انجام دیا ہومگر اسے کوئی تعمیری کام نہیں کہا جا سکتا ۔ ہمارا مذکورہ حیدرآبادی بھائیوں کو مخلصانہ ودردمندانہ مشورہ ہے کہ وہ سنیما بینی ترک کر کے اپنی تمام ترتوجہات ،اپنا وقت اور اپنا پیسہ اپنے معاشرے میں پنپ رہیں اصل برائیوں کو ختم کرنے میں استعمال کریں اور زندگیوں کو بدل دیں تو کسی کو توہین واہانت کی جرأت نہ ہوگی۔
7697376137