میر حسین
حضرت آدم ؑکی پیدائش سے لے کر آج تک ان گنت لوگوں کی آمد اس کرہ ارض پر ہو چکی ہے اور بے شمار افراد زندگانی دنیا کو جی کر رخت سفر باندھ کر ابدی آرامگاہ تک پہنچ چکے ہیں ۔ اس حکیم خدا کی حکمت کتنی نرالی ہے کہ ہر بشر کو الگ الگ اور غیر معمولی ذہانت سے نوازا ہے ۔ ہر ایک اپنے انوکھے انداز ،سلیقہ اور طریقہ کی بنیاد پر اس فانی دنیا کو دیکھ کر اپنی اپنی رائے اور تجاویز دیتا ہے اور دوسروں کے آراء ،اطلاعات اور علم کو استعمال میں لا کر آگے بڑھتا ہے اور تجربات حاصل کرکے آیندہ نسل کے لئے کچھ نقوش چھوڑتا ہے ،لہٰذا دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے دوسروں کےچھوڑے ہوے نقوش اور مثبت راہوں، راہنما ، اصولوں اور علم سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔البتہ اس ضمن میں عجلت اور صبر کی آپسی رنجش کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ چیزیں ہر سطح کی انسانیت کو منقسم کرتی چلی آرہی ہے۔ جلد بازی بعض اوقات نعمتوں کے چھن جانے کا سبب بنتی ہے، اس لئے صبر کے مقابلے میں عجلت جیسے شیطانی اسلحہ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ حصول کردہ تجربات انسان کو بعض اوقات آنکھوں سے آنسوں بہانے کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور کرتا ہے ۔ البتہ یہ اشک دوسروں کو رلانے کا سبب نہیں بننے چاہیے کیونکہ رونا اور رلانا دو متضاد چیزیں ہیں، رونا شدت جاذبہ اور رلانا شدت دافعہ کی علت ہے۔ زندگی آزمائش ہے اس آزمائش میں ناکامی اور کامیابی رہبر و رہنما کے انتخاب پر منحصر ہے ۔ کبھی کبھار منتخب کردہ رہبر مسکراہٹ بخشنے میں مؤثر ثابت ہوتا ہے ،البتہ اسکے پس منظر میں مستقبل کی مستقل تھر تھراہٹ کی پوشیدگی سے جی نہیں چرایا جا سکتا ۔ جب انسان زندگی کی فریب میں کھو جاتا ہے تو ذہین ذہنیت کے حامل ہونے کے باوجود اذہان کے ادیان تراش کر مغلوب نہیں غالب ہونے کا باطل ارادہ کرتے ہیں جو ان کی ناکامی پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔ یہ ذہین عقل کو محل و موقع کے مطابق استعمال ضرور کرتے ہیں لیکن شاید وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ کہیں کہیں عقل بھی دھوکہ دے کر انسان کو گمراہ ہی نہیں بلکہ فرزند نوح کی طرح غرقآب کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں فکر کرنا بھی عبث ثابت ہو جاتی ہے ۔ پس انسان کو بہترین چیزوں اور لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور اس میں مصلحت پسندی کا قایل بھی ہونا چاہیے، البتہ مصلحت پسندی سے اخذ کامیابی یا کامرانی انسان کی بصیرت پر مبنی انتخاب رہبر پر منحصر ہے ۔ انسان اکثر دھوکہ کھا جاتا ہے کبھی لفظوں کے معنیٰ کے نتیجہ میں تو کبھی بیان کرنے والے کے انداز بیان سے جیسے کہ اقرب اور عقرب جداگانہ معنی رکھتا ہے ۔ اقرب دوست یا آشنا ہوتا ہے جبکہ عقرب بچھو کو کہتے ہیں، لہٰذا یہ الفاظ دوستی اور دشمنی کا معیار قائم کرتے ہیں۔ اقرب دوست کی مثل ہے جبکہ عقرب دشمن کی نظیراس صورتحال میں اکثر عقرب کے مثل رہنماووں کا چناؤ کرتے ہیں ۔زندگی سماج میں رہ کر گذاری جاتی ہے نہ کہ خدا کی بشریت سے الگ ہو کر۔ جو ایسا کرتا ہے وہ کنارہ کش گردانا جاتا ہے اور کنارہ کش معمار سماج نہیں بلکہ مسمار قوم و ملت میں شمار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب ،جہاں اور جسکا بھی انتخاب کرو سوچ سمجھ ، علم ،بصیرت ،عقل اور دیگر اقدار زندگی کے مجموعہ کے سمیت کرو۔ بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے اپنے چشموں سے دنیا اور دنیا کے علمبرداروں کو نہ دیکھے بلکہ معیارات قائم کرے اور فکری منفی تضاد کا شکار ہونے سے بچیں تاکہ زندگی میں توازن بگڑ نہ جائے۔ ایک دوسرے کے امتیازات سے آشنا رہو کیونکہ انسانی امتیازات میں سے ممتاز ترین چیز آپسی امتیازات کا اقبال ہے ،کیوںکہ بشریت میں تفریق انسانی فطرت کا فطری حصہ ہے اور یہی دانائی ہے ۔ یاد رہے دانا ریت سے نگینوں کو چنتا ہے جبکہ نادان گوہر حیات کو ریت کے ذروں میں کھو دیتا ہے۔ یقین رکھو کہ ہر ظاہر میں باطن پوشیدہ ہوتا ہے ۔
[email protected]
فلسفہ حیات اور انتخاب