یو این آئی
واشنگٹن// امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک بھیجنے کے حوالے سے اپنے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ بدامنی اور تشدد کے بغیر رہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے میامی سے دارالحکومت واشنگٹن واپسی پر طیارے میں پریس کے ارکان کے سوالات کے جوابات دیے ۔غزہ کے باشندوں کو ہمسایہ ممالک بھیجنے کے بارے میں ان کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے خطے میں رہیں جہاں وہ بدامنی اور تشدد کے بغیر رہ سکیں۔ٹرمپ نے کہا کہ اگر آپ غزہ کی پٹی پر نظر ڈالیں تو یہ کئی سالوں سے جہنم بنی ہوئی ہے اور خطے میں ایک طویل عرصے سے تشدد جاری ہے ۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن دیکھنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں آپ لوگوں کو زیادہ محفوظ اور زیادہ آرام دہ علاقوں میں رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کے حوالے سے مصری صدر عبد الفتاح السیسیسی سے بات کی ہے ۔امریکی صدر کے مطابق انھوں نے اپنے مصری ہم منصب کو آگاہ کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ “یہ (فلسطینی) ایک ایسے علاقے میں رہیں جہاں وہ بنا کسی گڑبڑ اور انقلاب کے زندگی گزار سکیں ، جب آپ غزہ کی پٹی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ کئی برس سے جہنم بنی ہوئی ہے “۔اس سے قبل قاہرہ اور عمّان حکومتوں نے ایک بار پھر غزہ کی پٹی کی آبادی کو منتقل کرنے کے لیے اسرائیل یا اس کے علاوہ کسی اور کی منصوبہ بندی کو مسترد کر دیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ جبری ہجرت کی دوسری مہم ہے ۔اس سلسلے میں مصری وزیر خارجہ بدر عبد العاطی نے کل پیر کے روز ان جبری ہجرت کی کوششوں پر اپنے ملک کی تشویش کا اظہار کیا جن کا مقصد ہمسایہ ممالک میں عوام کو نشانہ بنانا ہے ۔ بدر کے مطابق خطے میں سیاسی اور انسانی صورت ابتری کا شکار ہے ۔ ان میں سیاسی تنازعات اور بحرانات کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات شامل ہیں۔مصری وزیر خارجہ نے باور کرایا کہ یہ عوامل بے گھر افراد اور مہاجرین میں اضافے میں اپنے کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مصر کی جانب مہاجرین کے بہاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے ہی 90 لاکھ سے زیادہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کا میزبان ہے ۔دوسری جانب اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے پیر کے روز ایک بار پھر اس موقف کو دہرایا کہ اردن کی مملکت فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے بارے میں کسی بھی بات چیت کو مسترد کرتی ہے ۔ انھوں نے باور کرایا کہ اردن اس موقف کے سامنے ڈٹا رہے گا۔پارلیمنٹ میں بریفنگ دیتے ہوئے الصفدی کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن سے متعلق ہر بات مسترد شدہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اردن اردنیوں کا ہے اور فلسطین فسلطینیوں کا ہے اور قضیہ فلسطین کا حل فلسطینی مٹی پر ہی ہو گا۔واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مصر اور اردن کو چاہیے کہ وہ غزہ کی پٹی سے مزید فلسطینیوں کا استقبال کریں۔
اسپین کی فلسطینیوں کی حمایت
یو این آئی
میڈرڈ// یورپی ملک اسپین ایک بار پھر امریکہ کے سامنے فلسطینیوں کی حمایت میں آگیا۔اسپین کے وزیر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کو “خالی کرنے اور اس کی آبادی کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے ۔ہسپانوی وزیر خارجہ نے برسلز میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہے جس پر ایک ہی حکومت کے کنٹرول کی ضرورت ہے ہمارا موقف واضح ہے : غزہ والوں کو غزہ میں رہنے کی ضرورت ہے ۔وزیر خارجہ نے یہ بھی اصرار کیا کہ یورپی یونین کو خوراک، صحت اور تعلیم کی ضروریات کے لیے امداد کے ساتھ غزہ میں “انسانی تباہی[؟] کی فوری مدد کرنے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یونرواکی موجودگی کی ضمانت دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔الباریس نے اعلان کیا کہ اسپین فلسطین اور یونروا کی مالی امداد کو 50 ملین یورو ($52m) تک بڑھا دے گا۔ امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر حماس کے رہنما باسم نعیم نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے دور کرنے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔باسم نعیم نے کہا کہ فلسطینی ایسا کوئی حل کبھی قبول نہیں کریں گے ، فلسطینی عوام نسل کشی کی انتہائی گھناؤنی اسرائیلی کارروائیوں میں ثابت قدم رہے ۔یاد رہے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے غزہ کے لاکھوں پناہ گزینوں کومصر،اردن میں پناہ دینے کا بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں سب کچھ تباہ ہوچکا،عرب ممالک سے ملکرالگ جگہ رہائشی منصوبہ چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کی تجویز پر کام کر رہے ہیں:اسرائیل
تل ابیب// اسرائیل کے انتہائی متعصب وزیر خزانہ بزالل سموٹرچ نے کہا ہے کہ ہم، غزّہ کی صفائی کے لئے ، صدر ٹرمپ کی پیش کردہ تجویز پر کام کر رہے ہیں۔’ینٹ’ انٹر نیٹ سائٹ کی خبر کے مطابق ‘دینی صیہونی پارٹی’ کے چیئرمین سموٹرچ نے اسرائیلی اسمبلی ‘کنیسیٹ’ میں پارٹی کے گروپ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ ہم فلسطینیوں کو جلا وطن کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو اور کابینہ کے ساتھ مل کر، ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں”۔سموٹرچ نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ایک پُر حکمت، مناسب اور حقیقی نقطہ نظر پیش کیا ہے ۔ فلسطینیوں کو اس زمین سے نکالنے کا واحد راستہ نقل مکانی کی حوصلہ افزائی ہے ۔مصر اور اردن سے موصول ہونے والے ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سموٹرچ نے کولمبیا کے اعتراضات کے باوجود صدر ٹرمپ کے مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی مثال پیش کی اور کہا ہے کہ “وہ جو چاہتا ہے کر رہا ہے “۔غزّہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں سموٹرچ نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے آخر میں اسرائیل کو اپنی جنگی حکمت عملی کو تبدیل کر دینا چاہیے ۔ حماس کے مکمل خاتمے اور غزّہ پر مکمل قبضے کے لئے ایک جارحیت پسند آرمی چیف کی تعیناتی ضروری ہے۔
غزہ میں اسرائیلی یرغمالی زیر زمین قید رہے
یو این آئی
تل ابیب// زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اسیران غزہ میں کئی مہینوں تک زیر زمین قید رہے ۔19 جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی میں اب تک تین اسرائیلی شہریوں اور چار فوجی خواتین کو رہا کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے 290 فلسطینیوں کو رہا کیا ہے ۔اسرائیلی فوج کے میڈیکل کور کے نائب سربراہ کرنل ڈاکٹر ایوی بنوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ان میں سے کچھ نے ہمیں بتایا کہ وہ تمام وقت زیرِ زمین سرنگوں میں رہے ہیں۔ڈاکٹر کے مطابق نوجوان خواتین میں سے سات “ہلکی بھوک اور وٹامن کی کمی کا شکار ہیں ان میں سے کچھ وہاں موجود پورے وقت میں اکیلے تھے ۔کرنال بنوف نے کہا کہ ان کی رہائی کے بعد کے دنوں میں ان کے علاج میں بہتری آئی، جب انہیں نہانے ، کپڑے تبدیل کرنے اور بہتر کھانا مل اس لیے وہ اپنی رہائی کے دنوں میں ویڈیوز میں اچھی حالت میں اور مسکراتے ہوئے دکھائی دیے ۔غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہے ، حماس نے اسرائیلی فوج کی 4 خواتین یرغمالی اہلکاروں کوہلال احمرکے حوالے کیا جنہوں نے شناخت کے بعد اسرائیلی فوج کے سپرد کر دیا۔اس سے قبل حماس نے 3 اسرائیلی یرغمالی خواتین کو ریڈکراس کے حوالے کیا تھا، جنہیں عملے کے ارکان اپنی گاڑیوں میں لے کر روانہ ہو گئے تھے ۔یرغمالی خواتین کی رہائی کا عمل پورا ہونے پر اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کو رہا کردیا تھا، اسرائیلی قید سے رہائی پانیوالوں میں 69 فلسطینی خواتین اور 21بچے شامل تھے ۔