وادیٔ کشمیر میں زندگی کے جس کسی شعبے پر نظر ڈالی جائے تو بدنظمی ،بے راہ روی اور لوٹ کھسوٹ کی صورت حال سامنے آجاتی ہے۔سرکاری و غیر سرکاری ملازمت ہو یا سماجی فلا ح و بہبود کے کام،کسی بھی معاملے میں پاکیزگی اور شفافیت کا رجحان بہت کم نظر آتا ہے۔وادی میں سماجی فلاح و بہبود کے نام پر کام کرنے والی نیم سرکاری یا غیر سرکاری تنظیموں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔اُن میں سے اگرچہ بعض تنظیموں کا کردار اور کارکردگی معاشرتی فلاح کی خاطر اہمیت کا حامل ہے تاہم زیادہ تر تنظیموں کا کردار بالکل مشکوک ہے۔اُن کے کردار اور کارکردگی میں کوئی شفافیت نظر نہیں آتی اور سماجی بہبود کے تئیں اُن کا رول ناقص اور نفی کے برابر ہے۔جانکار حلقوں کے مطابق وادی میں سماجی فلاح و بہبود کے نام پر قائم کی گئی زیادہ تر نام نہاد غیر سرکاری تنظیمیں عوام اور سرکار دونوں کے جھانسہ دے کر نہ صرف ذاتی مقاصد و مفادات حاصل کررہی ہیں بلکہ اُن افراد ،اداروں اور ایجنسیوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک رہی ہیں جو ریاست ،بیرونِ ریاست اور بیرونِ ممالک سے اُنہیں عوامی فلاح و بہبود کے لئے رقومات فراہم کررہی ہیں۔یہ رقومات ان تنظیموں کے منتظمین اور ارکان کے گھروں اور بنک کھاتوں میں ہی چلی جاتی ہیں،جبکہ ان تنظیموں سے وابستہ زیادہ تر لوگ عیار و مکار اور بد کردار ہیںاور سماجی فلاح و بہبودکی ٹھیکیداری کی آڑ میں سیاسی اثر ورسوخ حاصل کر کے اچھی خاصی پذیرائی بھی حاصل کرچکے ہیں۔حق بات تو یہ بھی ہے کہ وادیٔ کشمیر میں عرصۂ دراز سے بعض غیر سرکاری فلاحی تنظیموں نے نامساعد حالات کے دوران جو موثر اور مثبت رول ادا کیا ہے اور بدستور کررہی ہیں،اُس کو بھُلایا نہیں جاسکتا اور انہوں نے وقتاً فوقتاً کسی بھی بحرانی صورت حال سے متاثرہ لوگوں کی جو امداد کی اور اُن کی بحالی کے لئے جتنا حتی المقدور کام کیا ہے ،وہ واقعی قابل قدر ہے۔چنانچہ یہ تنظیمیں اپنے مالی وسائل ،مستحکم ڈھانچے اور بعض مراعات کے باعث بہتر طور پر کام کرنے کی پوزیشن میں تھیں،اسی لئے اپنی احسن کارکردگی پر اُنہیں عوامی سطح پر بھی پزیرائی حاصل رہی اور ایسی تنظیموں کو اپنی بے لوث قیادت ،صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی ملک اور بیرونِ ملک کے سماجی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔لیکن اپنی اس وادی میں جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں بعض موقع پرست اور شاطرالفطرت عناصر نے اپنے نجی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لئے راستے تلاش کرلئے ہیں ،اُسی طرح سماجی خدمات اور عوامی فلاح و بہبود کے پاک شعبے کو بھی بعض ابن الوقت نفس پرست عناصر نے اپنے ذاتی مفاد کے حصول کا ذریعہ بنالیا ہے۔یتیموں ،مجبوروں ،محتاجوں اور لاچاروں کے لئےحاصل کرنے والے مال و دولت کو لوٹ کر عیش کرتے ہیں،بالکل اُسی طرح جس طرح با عزت طریقے پر سرکاری انتظامی شعبوں میں کام کرنے والے بیشتر اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری ملازمین عوامی فلاح و بہبود کے لئے مخصوص خزانہ عامرہ کو لوٹ کر عیش کوشی کررہے ہیں۔اپنی اس وادیٔ کشمیر میں این جی اوز بھی موجود ہیںجو غریبوں اور مظلوموں کے حقوق کے تحفظ کا دم بھرتے ہیں،لیکن ان میں بھی زیادہ تر لوگ اپنے ہی افراد خانہ ،رشتہ داروں اور عزیزوں کو مراعات دینے اور فائدے پہنچانے میں مصروف ہیں۔کئی ایج جی اوز نے پٹرول پمپ اور شراب کے لائسنس حاصل کرکے اپنے کاروبار کو آگے بڑھا نے میں مگن ہیں۔این جی اوز سے منسلک کئی افراد نام نہاد ترقی ،خوشحالی اور انسانی حقوق کی آزادی کے نام پر معاشرتی اقدار کے خلاف گمراہ کُن پروپیگنڈے کے تحت غیر اخلاقیت،بے حیائی اور بے راہ روی کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔بعض ایسی این جی اوز بھی وجود میں آئی ہیںجن کی سرگرمیاں متنازع بتائی جاتی ہیں،انہوں نے ایک مخصوص سیاسی کردار کا رُخ اختیار کرلیا ہےاور لوگوں کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کے بجائے حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا راستہ اختیا کرلیا ہے تاکہ جو ممالک انسانی حقوق اور مسائل کو اہمیت دیتے ہیں ،اُن کی خوشنودی حاصل کرکے اُن سے زیادہ سے زیادہ ذاتی فوائد حاصل کرسکیں۔بعض این جی اوز حاصل ہونے والے فنڈز اپنی عیاشیوں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے کاموں پر صرف کرکے معاشرہ کو پراگندہ کرنے میں مشغول ہیں۔ظاہر ہے کہ این جی اوز کو مختلف ذرائع سے ملنے والے فنڈز کے شفاف استعمال کو جانچنے یا عہدیداروں کو بطورِ مراعات پر دینے والے رقومات کے جواز کو جانچنے کا یہاں کوئی ٹھوس ذریعہ موجود نہیں،اس لئے وہ ہر معاملے میں آزاد ہی دکھائی دیتے ہیں۔وادی میں سماجی فلاح و بہبود کے نام پر کام کرنے والی تمام غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کی کار کردگی اور فریم ورک کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔تاکہ جس مقاصد کے تحت ان کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ،وہ مقاصد پورے ہوسکیںاور نادار ،مفلس ومستحق حقدراروں تک اُن کا حق پہنچ سکے۔