معاشرے اور قومیں متوازن اور پائیدار ترقی کی وجہ سے ہی خوشحال بنتی ہیں۔صنعتوں ،سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہت سے اہم کامیابیوں نے بھی اپنی قوت ،قدرت سے حاصل کی ہےاور آج فطرت کی حفاظت اور تحفظ کا وقت آگیا ہے،جس کے لئےہمیں باہمی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ان باتوں کا اظہار جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ روز سانبہ جموں کی سنٹرل یونیورسٹی میں’ایر و سول ونٹر اسکول ،منتھن کی افتتاحی تقریب کے خطاب میں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مادرِ فطرت ہمیں ماضی کے غلط قدموں سے صحیح سبق سیکھنے اور سر سبز سیارے کی کام کرنے کی یاد دلارہی ہےاور فضائی آلودگی سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کاادراک دیتی ہے۔بے شک اس بات میں کسی مبالغہ آرائی کی گنجائش نہیں کہ حضرتِ انسان نے ہی اپنی بے ترتیب طرزِ حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی یہ زمین انسانی زندگی کے لئے اطمینان و سکون ،خوشحالی اورصحت و تندرستی کے لئے کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک کو اس وقت ماحولیاتی خطرہ لاحق ہوا ہے۔جموں و کشمیر میں بھی اس ضمن میں شدت کےساتھ مسائل میں حد سے زیادہ آلودہ ہوا، کوڑا کچرے کو ٹھکانے لگانے کے نظام کی بڑھتی ہوئی ناکامی ، سیلاب اور اربن فلڈنگ کے بڑھ رہےلاحق خطرات، گلیشیئرز کا پگھلنا، موسموں کے انداز میں تبدیلی، شدید گرمی اور منجمند کرنے والی سردی کی لہریں،پانی کی بڑھتی ہوئی قِلّت،کاشت کاری کے روایتی طریقے، زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔گویا ماحولیاتی تنزّلی سےجموں و کشمیر میں معیشت کا بڑے پیمانے پر نقصان ہورہا ہے اور اس میں بہ تدریج اضافہ ہو تا جارہا ہے، جس سے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔اگرچہ حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی جاچکی ہے ،لیکن ان پر صحیح معنوں میںاور بہتر طریقوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ حکومت نے درخت لگانے کی بھی مہم شروع کی تھی جو تا حال کامیاب ثابت نہیں ہوسکی ہے،جس کے نتیجے میںجنت بے نظیر کہلانے والی اس وادیٔ کشمیر کی صاف و شفاف فضائیں اور صحت بخش ہوائیںزہریلی ہو چکی ہیں۔ندیاں، چشمے اور دریا گدلے اوربدبودار ہو چکے ہیں، زہریلی گیسز اور دھواں ہوا کے ساتھ گھُل مِل ہوچکا ہے،جس سےخوف ناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ نہ صرف فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت تک کم ہو رہی ہےبلکہ اس کا براہِ راست اثر جنگلی حیات پر بھی پڑ رہا ہے،اُن کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں،نیز آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہی ہے،جو کہ ہر صورت میں انسانی زندگی اور دوسرے جانداروں کے لئے نقصان دہ ہے۔گورنر صاحب کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ انسانوں کی غلط طرزِ معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو مختلف طریقوں سے تبدیل کیاگیاہے جس کے نتیجہ میں ہماری فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی کہ جس سے اب فائدے پہنچنے کے بجائے نقصانات ہونے شروع ہوئے ہیں۔اس لئے اب لازم ہے۔ہمارے یہاں ماحولیات کا جو محکمہ موجود ہے،اُس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے،اُس کو بااختیار اور متحرک کیا جائےتاکہ ہماری آلودہ فضا اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آئے ۔جس کے لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی منصوبہ بنایا جائے،اُس پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جائےاوراطراف و اکناف میں آلودگی پھیلانے والے تمام ذرائع کا جائزہ لیا جائےاوراُن کاحل تلاش کیا جائے۔خصوصاً زہریلا دھواںاور مضر صحت گردو وغبار روکنے کے لیے سائنسی ذرائع کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ یہاں کی فیکٹریوں، کارخانوں، اسپتالوں اور شہروں کا کچرا ٹھکانے لگانے کے لئے مناسب اورمستقل حل تلاش کیا جائے اور ساتھ ہی قدرت کی حسین وادیوں جو کہ قدرت کا حسین شاہکار ہیں، انکو بھی آلودہ ہونے سے بچانے کے لئےٹھوس اقدامات کئے جائیں۔یا د رہے کہ جب تک ان تمام اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوگا،تب تک ہماری یہ زمین ہماری زندگی کے لئے چین وسکون ،ترقی ،خوشحالی اور تندرستی کا ضامن نہیں بن سکتی ہے۔