ہارون ابن رشید
اللہ تعالیٰ کی طرف عطا کردہ رزق کو خرچ کرنے کا پورا پورا اختیار ہے لیکن فضول خرچی اور اسراف سے قطعی طور پر منع کیا گیا ہے اور احسن طریقے سے قوائد و ضوابط کے مطابق خرچ کرنا لازمی ہے جبکہ موجودہ حالات اس کےبالکل برعکس ہیں کیونکہ ہماری رہن و سہن اور تہذیب و تمدن میں مغربی تہذیب کی یلغار ہے، ہم لوگ بے وائے دریا کے پانی کی طرح فضول خرچی کرکے پیسے بہا دیتے ہیں اور ناشائستہ طریقے سے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرتے ہیں۔ نکاح جو سنت ہے اور دیگر مذاہب میں بھی شادی بیاہ امر لازم ہے اور اس کے لئے باضابط طور اصول و ضوابط وضع کئے ہوئے ہیں لیکن اس نیک کام کو انجام دینے میں جائز طریقوں کو بالائےطاق رکھ کر غیر مہذب طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں۔ہماری شادی بیاہ میں ایسے رسومات بد ہوتے ہیں جس سے مہذب باشعور افراد شرمسار ہوتے ہیں اور اسی طرح سے انسان کو روزمرہ زندگی گزارنے کیلئے بھی ضابطہ حیات دیا ہے اور خرچ کرنے کے طریقے بھی واضح ہیں لیکن انسان سب کچھ بول کر اپنی منشاء کے مطابق اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو غیر ضروری اور نازیبا کاموں پر خرچ کرتا ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان بالخصوص مسلمان کو سادہ زندگی گزارنا بہترین راہ عمل تھا لیکن انسان نے اس کو سرے سے ہی ترک کیا ہے اور اس نے مغربی تہزیب جس کو ماڈرن ازم کے نام سے جانا جاتا ہے اور اپنانے میں فخر کرتا رہا جبکہ مصیبت کی اس گھڑی میں جہاں ہر دل رنجیدہ اور آنکھ نم ہے اس میں سادگی کے پیغامات دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے بھی ایسے پیغامات دیئے جاتے اور لوگوں کو سادگی سے زندگی گزارنے کے لئے قائل کیا ہوتا تو شاید آج ہم اس مصیبت کے دلدل میں پھنس چکے نہیں ہوتے ۔ یہاں یہ بات غور طلب ہیں کہ ہر انسان کو ہی نہیں بلکہ ہر مخلوق کو اپنے حقوق ہیں اور کوئی شخص کسی کے حقوق چھین نہیں سکتا اگر زور بازو طاقت کے بل پر کوئی کسی کا حق چھینتا ہے تو اس کا انجام آخر میں برا ہونا طے ہے لیکن اس دنیائے فانی میں بھی اس شخص کو اس کا خیمازہ اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ تمام آدم انسان آدم کے اولادہیں گویا ہر انسان ایک دوسرے کا بھائی ہے لیکن دو بھائیوں کے درمیان اپنے منشاء سے تفاوت رکھی ہے جس وہ اللہ نے مال و جاہ اور دھن دولت کی عنایت فرمائی اس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ ڈالا۔ کیونکہ صاحب ثروت افراد کو مفلس اور مفلوک الحال لوگوں کی طرف پوری توجہ مبذول کرنے کی ذمہ داری ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے آج تک کوئی بھی رزق نہ ہونے کی وجہ سے ازجان نہیں ہوا۔ کیوں کہ اللہ ہر مخلوق کو کسی نہ کسی طرح رزق عطا کرتا ہے لیکن صاحب ثروت افراد کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و متاع سے سرفراز کیا ہے وہ فضول خرچی کے بجائے ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو ان کی مدد کے محتاج ہیں۔ کیونکہ ان کا حق ہے جس کے بارے اللہ کے حضور ضرور پوچھ تاچھ ہوگی۔
[email protected]