جوں جوں لوک سبھا کے انتخابات قریب آرہے ہیں، مرکز میں حکمران نریندرمودی سرکار کی زیرِقیادت بھاجپا اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں عوامی فلاح وبہبود کی کوئی کارکردگی نہ دکھانے کے باعث عوام الناس سے الگ تھلگ ہوچکی ہے اور آج کی تاریخ میں اس کی شناخت امیردوست اور غریب دشمن ہونے کی بنی ہے ،اس لئے اب یہ پیش آئند الیکشن میں بازی مارنے کے لئے اپنے سیاسی ترکش سے نئے نئے تیر نکال کر آزما رہی ہے ۔ 2014کے انتخابات سے ماقبل ڈاکٹر منمومہن سنگھ کی سرکار کانگریس پارٹی کی غیر جمہوری، عوام کش اوربدعنوان پالیسیوں اور گھپلے گھوٹالوں کی وجہ سے اُسی طرح عوام سے اِلگ تھلگ ہوچکی تھی جس طرح ہم اور آپ آج کل مودی سرکار کو دیکھ رہے ہیں ۔ اُس وقت کانگریس مخالف صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرکے بھارتیہ جنتاپارٹی اور اُس کے قائد نریندرمودی اپنی لچک دار لفاظیت ،محاورہ بازی ،لچھے دار تقریروں اور سنہرے سپنوں سے انتخابی جنگ معرکہ’’ اچھے دنوں کی آمد‘‘ کا نعرہ دے دے کر کر مار گئی۔مودی نے 2014میں گلا پھاڑ پھاڑ کر رشوت ستانی، بھرشٹاچار اور دوسرے حکومتی اسقام دور کر نے کے علاوہ گھپلے گھوٹالوں کاانسداد کرنے، ابتر اقتصادی صورت حال کو دُرست کرنے، بے کاری سے قوم و ملک کو نجات دلانے، مہنگائی پر موثربریک دینے، کنبہ پروری اور اقرباء نوازی کاخاتمہ کرنے کے بلند وعدے کئے تھے مگر وقت نے ان وعدوں کو ٹائیں ٹائیں فش ثابت کر دیا اور آج ملک پہلے سے کئی زیادہ گھمبیر مسائل سے دوچار ہے۔ہم نے اُس وقت بھی دو اور دو چار کی طرح کہاتھا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی اور کانگریس پارٹی کی بنیادی پالیسیوں میں رتی بھر بھی فرق نہیں، کیونکہ دونوں پارٹیاں لوٹ کھسوٹ کرنے والے طبقوں ، سامراجیت، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈازم کی نمائندہ اور ترجمان ہیں،لیکن عوام کالانعام بھاجپا کے بہکاوے آگئے اور نہ صرف مرکز بلکہ بیشتر ریاستوں میں بھی سنگھ پر یوار کو اپنی سیاسی ومعاشی قضا وقدر کا مالک بناکر تخت ِحکمرانی پر بٹھا دیا۔ چونکہ اب جب پانچ سال بعد نریندرمودی کی زیرِقیادت بھاجپا سرکار کا یوم حساب اور احتساب قریب آگیا ہے اور عوام صٓاف صاف محسوس کررہے ہیں کہ اُن کے ساتھ دھوکہ اور فریب کاری کی گئی ہے اور لوگ خود کو حسب سابق خالی ہاتھ بھی پارہے ہیں اور مسائل کے بوجھ تلے نیم جان بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ جیسے محسوس کرتے ہیں ع
جو کچھ کہ دیکھا، خواب تھا جو سنا افسانہ تھا
اِس لئے عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں اوربھاجپا کو ایک تلخ سبق سکھانے کے موڈ میں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سنگھ پریوار اقتدار کے سنگھاسن پر بنے رہنے کے لئے عوام کی توجہ زمینی حقائق سے ہٹا نے کی غرض سے فرقہ وارانہ منافرت وجنون کے پُر خطرکھیل کھیلنا شروع کر چکاہے ۔
مرکز میں اقتدار سنبھالنے سے قبل بھاجپا نے سب سے زیادہ زور رشوت ، بھرشٹاچار ، گھپلوں گھوٹالوں کو ختم کرنے پر دیاتھالیکن پانچ سال کے بعدصورت حال حسبِ سابق دیکھی جار ہی ہے۔ بھاجپا کے وزرائے اعلیٰ، وزراء، لیڈروں اور کارکنوں پر رشوت اوربھرشٹاچار اور دھاندلیوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ نیرو مودی ، للت مودی ، وجے مالیہ ، سی بی آئی تنازعہ، آر بی آئی کا قصہ ا س سلسلے میں ہوا کا رُخ برارہے ہیں ۔ حتیٰ کہ خود وزیراعظم نریندرمودی آج کل فرانسیسی رافیل طیارے گھوٹالہ کی زد میں آئے ہوئے ہیں اوراُن کے دست راست بھاجپا صدر امت شاہ بھی اس نرغے میں آچکے ہیں، لیکن بھاجپا نے خود ہی مدعی خود ہی منصف کا کردار اپنا کرکسی ایک کے خلاف بھی تفتیش یا تحقیقات کرائے بغیر سب کے نام ’’نیک چلنی‘‘ کا سر ٹیفکیٹ جار ی کردیاہے تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ بدعنوانی، رشوت، بھرشٹاچار ، گھپلے گھوٹالوں کی تفتیش اور تحقیقات کے لئے کانگریس کی منموہن سنگھ سرکار زبردست ایجی ٹیشن کی لہر پر سوار ہوکر ہی نریندرمودی گجرات سے چھلانگ مار کر دلی میں برسر اقتدار آئے تھے۔ قبل ازیں مجبور ہوکر ڈمیج کنٹرول کے طور منموہن سنگھ سرکار نے ایک احتساب قانون (لوک پال ایکٹ) منظور کر لیاتھا، لیکن کورپشن کے خلاف سینہ سُپر ہونے والے کا دم بھر نے والے نئے وزیراعظم نے چھپن انچ کی چھاتی کا اعلان کیا مگر مختلف حیلوں بہانوں سے اس قانون کو اپنی معیاد حکمرانی ختم ہونے تک لاگو ہی نہیں کیا۔ یہ غیر شعوری یا غیر ارادی چُوک نہیںہے بلکہ ایک سوچے سمجھے پلان کے طورکیاگیا،کیونکہ اس کی قانون کی زد خود مودی اور امت شاہ پر بھی پڑسکتی تھی۔ اس سے بڑھ کر عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے دھوکہ اور فریب کیا ہوسکتاہے؟ غیر ملکی بنکوں سے کا لا دھن واپس لا کر ہر ہندوستانی کے کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع کرنے کے خوش نما اعلانات تو کئے گئے تھے لیکن عملی طور انہی خفیہ کھاتہ داروں کے مفاد میں ہر کوئی کام کیا گیا۔ الل ٹپ نوٹ بندی کرکے عام لوگوں کو اپنا پیسہ حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر مہینوں کھڑاکردیاگیا ، اس کشمکش میں کئی ایک جانیں ہی نہ گئیں بلکہ نئے نئے گھوٹالوں کو راہ بھی ملی ۔ اس سے بڑھ کر غریب دُشمنی کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے؟ کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے اعلانات کئے گئے تھے لیکن ان اعلانات کا مضحکہ اُڑاکر بڑے بڑے صنعت کاروں کو بنکوں کے قرضہ جات دلا کر اُنہیں غیر ممالک میں فرار ہونے کاراستہ بھی مہیا کیاگیا، جب کہ غریب کسان خود کشیاں کر کے دنیا سے مکتی پاتے جارہے ہیں ۔
بے کاری اور بے روزگاری کے آدم خور عفریت کاگلا گھونٹنے اور بے کاروں کو باعزت روزگار مہیا کرنے کے بلند بانگ اعلانات کئے گئے تھے، خصوصی طورپر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کے سلسلہ میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے تھے لیکن وقت آنے پر اُنہیں ٹرخاتے ہوئے چائے پکوڑے بیچ کر خودروزگار کمانے کی مفت صلاح خود وزیراعظم نے دے ڈالی ۔ چنانچہ آج بے کاروں کی تعداد اُس وقت سے بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے جو 2014میں تھی اور اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ پنتالیس سال میں بے روزگاری اپنا پھن پھیلائے ہر نوجوان کو اتنا نہیں ڈس رہی تھی جتنا آج کی تاریخ میں ڈس رہی ہے ۔ اسی لئے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور بے روزگاروں میںزبردست بے چینی اور ذہنی اضطراب کے ساتھ ساتھ بھاجپا سر کار سے خیر کی کوئی اُمید نہیںہے۔ بعینہٖ معیشت کی دُرستی کرکے مہنگائی کا انسداد کرنے کے بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے تھے لیکن عملاً آج 2014کی نسبت مہنگائی میں کئی سوگنا اضافہ ہوچکاہے۔
لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر بنانے کے چھاتی تان کر اعلانات کئے گئے تھے لیکن ہجومی تشدد کے ذریعہ جس طرح بے گنا ہ لوگوں کو نشانۂ عبرت بنانے کی جو نیا کلچر پروان چڑھایا گیاہے، وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بھاجپا احترام ِ آدمیت اور شہریوں کے تحفظ مال وجان کا ادنیٰ سا تصور بھی رکھتی ہے۔ خصوصی طورپر اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقوں کا جس طرح ناطقہ بند کیاگیا ہے ،وہ ہر کوئی من وعن جانتاہے۔غرض یہ کہ سماج کا ہر طبقہ بشمول مزدور، کسان، سرکار ی ملازم، مڈل کلاس، دیانت دار، طلباء ، نوجوان تاجر اور محنت کش سبھی مودی سرکار سے نالاں نظر آتا ہے اور وہ اس سرکار کی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار کے سیاسی مکھوٹے کو کئی ریاستوں میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑاہے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے جتنے ضمنی انتخابات ہوئے، اُن میں زیادہ تر بھاجپا اُمیدوار ناکام رہے ہیں۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں بھاجپا اقتدار میں کھوبیٹھی ہے۔ اس لئے نریندرمودی ، امت شاہ اینڈ کمپنی اس وقت مایوسی کے عالم میں ہیں۔بھاجپا کے اتحادی اس کے طر زسیاست سے نالاں ہیں اور خود بھاجپا کی صفوں کے اندر سے بغاوت کا عمل شروع ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ اس سے نریندرمودی اوربھاجپا کی قیادت انتہائی پریشانی سے دوچار ہونا قابل فہم ہے اور ایسے میں کسی نہ کسی طرح جذباتی مسائل میں الجھا کرعوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسر ے سے گتھم گھتا کر ناا ن کی پالیسی بنی ہوئی ہے۔ یادرہے اب وکاس کانعرہ ختم ہوچکاہے، اب صرف فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر ہندو تو کے نام پر ووٹ حاصل کرکے دوبارہ برسر اقتدار ہونے کی حسرتیں پوری کر نے کی دُھن دل ودماغ پر سوار ہے جوکہ انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ پہلے تو بھاجپا کے کئی لیڈر اور وزراء فرقہ وارانہ منافرت کا کھیل کھیلنے میں مشغول تھے، اب نریندرمودی اپنے منصبِ جلیلہ کے تقاضوں سے صرف نظر کر کے بذات خود اس کھیل میںشامل ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی قیاسی بات نہیں بلکہ ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جو وزیراعظم مودی کے کئی بیانات اور تقاریر سے ظاہر ہوتی ہے ۔اس امر کو نہ صرف ہندوستان کے دانشور اور جانکار حلقے ہی محسوس کررہے ہیں بلکہ بیرونی دُنیا بھی اس کا نوٹس لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا انتباہ انتہائی قابل غور ہے ۔’’ نیویارک ٹائمز ‘‘نے لکھاہے کہ بھاجپاقیادت کی کٹر پنتھی سیاست کی وجہ سے انتخابات سے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ انتخابی اور سیاسی اغراض کے لئے فرقہ وارانہ منافرتیں اور شکوک وشبہات پھیلانے کا یہ کھیل جو آج کل کھیلا جارہاہے ،انتہائی خطرناک ہے۔ یہ صورت حال ملک اور قوم کو برادر کشی ، تباہی اور بربادی کی جانب موڑسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھاجپا قیادت کے لئے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کیایہی ایک کارڈ بچاہے۔؟رام مندر بابری مسجد کا تنازعہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے ۔ تمام پارلیمانی پارٹیوں نے کہاہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کریںگی لیکن اس کے باوجود پانچ سال تک حکمرانی کے دوران اس مسئلہ پر خاموشی کے بعد یکایک بھاجپا اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی طرف سے اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر مندر بنانے کی مہم کاآغازکردیاگیاہے اور اس سلسلہ میں بعض فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے مندر کی سنگ بنیاد رکھنے کی تاریخ بھی مقرر کردی گئی ہے۔ یہ بات خالی از علت نہیں ۔ کیا ہوتا ہے یا کیا نہیں ہوتا ہے ، اس کی پیش بینی کئے بغیر رہا نہیں جاتا کہ یہ بات طے ہے کہ اس چیز سے ملک میں زبردست فرقہ وارانہ کشیدگی پید اہونے کا اندیشہ ہے ۔اُترپردیش کے بھاجپائی وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کا مغربی بنگال میں اپنی تقریر میں برملا کہنا ’’فخر سے کہو کہ ہم ہندوہیں‘‘ کیا معنی رکھتا ہے ؟ اپنے آپ کو ہند وکہنا تو نادُرست نہیں لیکن یوگی نعرے کا مطلب’’ ہندوراج اور ہندو راشٹر‘‘ کا قیام ہے۔ اس قسم کی نعرہ بازی سے لازماً اقلیتوں میںخوف وہراس پیدا ہواجوکہ پیش آمدہ حالات کاآئینہ درا ہے۔اسی طرح سٹی زن شپ ایکٹ کے نفاذ کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ یہ قانون بھی فرقہ واریت کا علمبردار ہے۔ اس کے تحت ہندوستان میں آنے والے مائیگرنٹوں میںسے ہندوئوں کو تو شہری حقوق دئیے جارہے ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا جارہاہے۔ یہ فرقہ واریت نہیں تو اورکیاہے؟ شمال مشرقی ہندوستان میں اس قانون کے خلاف زبردست مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ بھاجپا کے صدر امت شاہ کی طرف سے بار بار یہ دھمکیاں کہ مسلم مائیگرنٹوں میں ایک ایک کو چن کر ملک بدر کیاجائے گا۔ اس سے مغربی بنگال ، آسام اور شمال مشرقی ہند میں اقلیتوں میں زبردست خوف وہراس پھیلنا قابل فہم ہے اور اقلیتی فرقہ کے لاکھوں لوگوں کودیش بدری کا خطرہ بھی درپیش ہے۔اس سے فرقہ وارانہ تنائو بڑھ رہاہے ۔حد یہ کہ مال مویشی کی تاجروں کو گئو رکھشا کے نام پر احتماعی تشدد کا نشانہ بنا نے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیںہے کہ لوگوں کو ڈار دھمکاکر اپنا غلام بنایا جائے۔ اس قسم کے مجنونانہ واقعات میں کئی لاچار لوگ قتل بھی کئے گئے لیکن قاتلوں کے خلاف قانونی کا روائی تو کجا ملزمین کو رہا کر واکے جب وزراء تک نے ان کو پھول مالائیں پہنائیں تواس سے اقلیتوں کا خوف زدہ ہونا اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلنا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔اس قسم کے نا قابل بیان واقعات سے بعض مسلمانوں میں ایسی دہشت پائی جاتی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو متعدی بیماریوں کے ٹیکے لگوانے اور دوائیاں کھانے سے بھی شک کے عالم میں انکار کررہے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھاجپا انتخابی اغراض براری کے لئے کس قسم کا پراگندہ ماحول پیدا کررہی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جموںوکشمیر واحدمسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس ریاست کو دفعہ 370؍ اور35A؍ کے تحت حاصل شدہ سپیشل حقوق کو آئین ہند سے حذف کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، وہ محض فرقہ وارانہ منافرت وکدورت پھیلانے کا ہی حصہ ہیں تاکہ ا س سے سیاسی فوائد سمیٹے جائیں۔یہ چند عیاں وبیاں مثالیں ہیں جو موجودہ حکمران ٹولے کی طرف سے فرقہ وارانہ لام بندی پر دلالت کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دے کرانتخابی مفادات کے لئے پھیلائی جارہی فرقہ وارانہ نفرت کیخلاف متحدہ ہو کر حکمران ٹولے کو یہ پیغام دیں کہ ملکی عوام کے فرقہ وارانہ جذبات برانگیختہ کرکے انتخابی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کے دن لد گئے ہیں ،ا ب لوگ اس قدر ہوش مند ہیں کہ کمیونلزم کی آڑ میں سیاست کا کھیل کھیلنے والوں کی بیل منڈھے نہ چڑھے گی۔ ان لوگوں سے ملک وقوم کو نجات دلانے کے لئے اگرچہ سنجیدہ ، باشعور، محب وطن، جمہوریت پسند اورذہنی صحت مندی سے لیس عناصر کو ایک ہونا چاہیے مگر ہم اس کے بجائے یہ تلخ حقیقت دیکھ رہے ہیں کہ بھاجپا کا متبادل ہونے کا دعویٰ رکھنے والی کانگریس پارٹی تک نے بھی نرم ہندوتو کا رویہ اپنایاہواہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ جماعت اکثریتی طبقے میں اپنا سیاسی اثرورسوخ قائم کر نے فراق میں ہے ۔ اس کے لئے پارٹی سیکولرازم تکو تیاگ دینے پر تیار نظر آتی ہے ۔
حاصل بحث یہ ملک ا س وقت ایک نازک دور سے گزر رہاہے ۔ ایسے میں فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ منافرت کی آگ سلگائی جارہی ہے ، اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ محنت کش عوام درپیش مسائل پر مشترکہ کاروائیوں سے اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا کریںاور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کا قلع قمع کر نے میں آگے آئیں۔ وگرنہ فرقہ پر ست عناصر کی طرف سے پیداکی جانے والی زہر یلی فضا سے یہ پیارا ملک نہ صرف نحوستوں کے بھنور میں پھنس جائے گا بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کاخدشہ فی ا لحقیقت موجود ہے۔ یہ ملک مختلف مذاہب، مختلف قومیتوں ، مختلف فرقوں، مختلف خطوں، مختلف بودوباش رکھنے والے لوگوں ، مختلف لسانی طبقوں پرمشتمل گلدستہ ہے۔ اس میں یک رنگی نہیںچل سکتی ہے، بوقلمونی ہی اس ملک کی یکجہتی، اتحاد اور یگانگت کی ضامن ہے۔ اندریں حالت ضروری ہے کہ مذہب، ذات برادری، علاقائی تعصب، لسانی منافرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف مکمل لام بندی کے اُن کی زہر ناک سازشوں کو ناکام کیا جائے۔ فی الوقت علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیں پکار پکار کر جاگ اُٹھنے کی اذان دے رہاہے ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں