ابن سلطان ۔ سانبورہ
اسلام کی تاریخ میں فتح مکہ محض ایک عسکری کامیابی نہیں تھی بلکہ یہ انسانیت، عدل، درگزر، حکمت اور رحمت کا وہ بے مثال مظاہرہ تھا، جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ وہ دن تھا جب ظلم کے بادل چھٹ گئے، باطل کے ایوان لرز گئے اور دنیا نے دیکھا کہ ایک فاتح جب اللہ کا نبی ہوتا ہے تو اس کی فتح کیسی ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہؓ نے مکہ میں تیرہ سال ظلم، جبر اور استہزاء کا سامنا کیا۔ کفار نے آپؐ اور آپ کے ساتھیوں پر وہ مظالم ڈھائے ،جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بلال حبشیؓ کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا، سمیہؓ کو برچھیوں سے شہید کر دیا گیا اور رسول اللہؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، مگر آپؐ نے صبر کی مثال قائم کی۔ جب ظلم حد سے بڑھا تو اللہ کے حکم سے ہجرت کی گئی، مگر کفار نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور بدر، احد اور خندق میں جنگیں مسلط کر دیں۔جب ۸ ؍ہجری میں قریش نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی، تو اللہ کے نبیؐ نے 10,000 صحابہؓ کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی کی۔ کفار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آج وہ لمحہ آن پہنچا ہے جب اللہ کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہوا، ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ مگر جو ہوا، وہ انسانی تاریخ میں ایک انقلاب تھا۔
مکہ میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے قریب کھڑے ہوئے اور فرمایا:’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ ؐ کو اور آپ کے صحابہؓ کو اذیتیں دی تھیں، گھر بار چھینے تھے، قتل کی سازشیں کی تھیں، مگر آج جب رسول اللہؐ کو بدلہ لینے کا پورا حق تھا، تو آپؐ نے معافی اور درگزر کو چنا۔ یہی وہ عدل و رحمت تھی جس نے عرب کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کر دی۔نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے بعد فوری طور پر اعلان کیا کہ:’’جو لوگ ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔جو اپنے گھروں میں رہیں گے، انہیں بھی امان دی جائے گی۔کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔‘‘یہ اسلامی عدل و انصاف کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔فتح مکہ کے بعد وہ تمام بُت جو خانہ کعبہ میں رکھے گئے تھے، انہیں گرایا گیا اور توحید کا پرچم بلند کیا گیا۔ یہ صرف ایک شہر کی فتح نہیں تھی بلکہ یہ دلوں کی فتح تھی، نفرتوں پر محبت کی فتح تھی، انتقام پر معافی کی فتح تھی، ظلم پر انصاف کی فتح تھی۔
فتح مکہ کے بعد اسلام عرب میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ دین نہ تلوار سے مسلط کیا گیا ہے اور نہ ہی ظلم کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے بلکہ یہ رحمت، صبر، عدل اور انسانیت کا پیغام ہے۔یہی وہ حکمت عملی، درگزر، عدل اور اخلاق تھے، جنہوں نے فتح مکہ کو ایک عسکری کامیابی سے بڑھ کر ایک روحانی و اخلاقی انقلاب بنا دیا۔آج بھی اگر دنیا میں حقیقی فتح چاہیے تو وہ تلوار سے نہیں بلکہ عدل، رحمت، صبر اور انسانیت کے اصولوں پر عمل کرکے ہی ممکن ہے۔ یہی سبق فتح مکہ ہمیں سکھاتی ہے۔
رابطہ۔9906620009
[email protected]