حیدرآباد//سنسکرت میں موجود ہند ومت کی مذہبی کتب رامائن، مہابھارت و دیگر کا سب سے پہلے فارسی میں ترجمہ ہوا۔ مترجمین عمومی طور پر مدارس کے فارغ تھے۔ چونکہ فارسی اس دور میں آدھی دنیا کی زبان ہوا کرتی تھی۔ اس لیے ان کتب کے دیگر زبانوںمیں تراجم فارسی سے ہوئے راست سنسکرت سے نہیں۔ اس طرح فارسی، ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عالمی رسائی کا ذریعہ بنی۔ اِن خیالات کا اظہار پروفیسر شریف حسین قاسمی، سابق صدر شعبۂ فارسی، دہلی یونیورسٹی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبۂ فارسی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ 2 روزہ قومی سمینار کے اختتامی اجلاس میں کیا۔ سمینار کا عنوان ’’ہندوستانی تہذیب ، ثقافت اور علوم و فنون کے فروغ میں مدارس کا حصہ (فارسی، عربی اور اردو ادبیات کے تناظر میں)‘‘ تھا۔ پروفیسر محمد ظفر الدین، ڈائرکٹر نظامت ترجمہ و اشاعت و صدر شعبۂ ترجمہ نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اعلیٰ تعلیم کی اگر بات کی جائے تو ہندوستان میں سب سے پہلے نالندہ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم کا نظم مدارس میں ہی ہوا کرتا تھا۔ گویا یہ اعلیٰ تعلیم کے سرچشمہ رہے۔ آج اہل وطن ان مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ سمینار انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے وہ بچے جو سائنسی و دیگر علوم میں وابستہ ہونا چاہتے ہیں وہ مانو کے رابطہ (برج) کورس سے جڑ کر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں اور وہ یقینی طور پر مین اسٹریم طلبہ سے زیادہ بہتر کارکردگی کرسکتے ہیں۔پروفیسر حسن عباس، ڈائرکٹر رضا لائبریری، رامپور، اتر پردیش نے کہا کہ جہاں مدارس نے مسلم طلبہ کی تعلیمی آبیاری کی وہیں ان سے ہندو بھائیوں نے بھی استفادہ کیا۔ مدرسے سے ہی فارغ ایک مولوی مہیش پرساد تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے عالم و فاضل کی سندیں حاصل کیں۔ ان کے پاسپورٹ میں بھی مولوی مہیش پرساد، عالم و فاضل لکھا تھا۔ انہوں نے مولوی مہیش پرساد کے متعلق مزید بتایا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں عالم و فاضل کی ڈگریوں کے حصول کے دوران اپنے مسلم ہم جماعتوں سے زیادہ نشانات حاصل کیے۔ پروفیسر محمد اقبال، سابق صدر شعبۂ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ دینی مدارس دور دراز ، دیہاتوں اورقریوں میں طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ پروفیسر علیم اشرف خان بھی شہ نشین پر موجود تھے۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبۂ فارسی نے کارروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔