ہلال بخاری
یہ ایک خود دار آدمی کی کہانی ہے جو پورے ملک میں واحد شخص تھا جس نے ظالم کے آگے کبھی سر نہ جھکایا تھا۔ جب اس ملک کے جابر حکمران کو اس کی بغاوت کا پتہ چلا تو اس نے فرمان جاری کیا،
“اس سرکش کو قید بامشقت کی ایسی سزا دی جائے کہ یہ ساری سرکشی بھول کر ہماری غلامی قبول کر لے ”
حاکم اسے ایسی سزا دینا چاہتا تھا کہ وہ یا تو اسکی غلامی کرلے یا خود کشی پر مجبور ہوجائے۔
اسکی سزا یہ مقرر ہوئی کہ وہ دن بھر بغیر رکے اور بغیر تھکے بھاری پتھر ایک نالے سے اٹھاکر ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچادے۔
اور جب وہ اگلے روز پھر سے کام پر آجاتا تو دیکھتا کہ کہ وہ سارے پتھر جو اس نے پچھلے دن پہاڑ کی چوٹی پر بڑی محنت اور مشقت سے پہنچائے تھے پھر سے اسی نالے میں گرائے گئے ہیں۔ اس کو ہر دن پھر سے وہی ازیت کا عمل دہرانا پڑتا۔ ہر دن مسلسل یہی عمل جاری رہتا۔
ایک عرصہ دراز تک حاکم انتظار کرتا رہا کہ اس شخص کی رجوع یا موت کی خبر آج نہیں تو کل آکے ہی رہے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ حاکم کا ذہن گویا اس شخص کی سوچ میں اور اسکا دل اسکی نفرت میں خود غلام بنے لگا۔
پھر اس تانا شاہ نے ایک دن فخر سے فرمایا،
” کیوں نہ میں آج اس شخص کی مصیبت اور اس کی اذیت کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے دل کو شادمان کروں ؟”
اس نے حکم دیا کہ اس کو اس سرکش شخص کی سزا کا نظارہ دکھایا جائے۔
اس نے دیکھا کہ کس طرح وہ شخص محنت اور مشقت سے بھاری پتھروں کے بوجھ کو کندھوں پر لاد کر بڑی مشکل سے اس اونچے پہاڑ پر چڑھتا جا رہا ہے۔ حاکم دیکھتا رہا کہ کس ازیت سے گزرتے ہوئے وہ نوجوان پسینہ پونچھتا رہتا اور آگے بڑھتا جاتا۔ اس نے اپنے ذہن میں سوچا،
“اس سرکش کے ذہن اور دل اس کے جسم سے بھی زیادہ تھکاوٹ سے چور ہونگے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی ساری محنت کا کوئی حاصل نہیں۔ اگلے دن ہر ایک پتھر پھر سے اسی طرح کندھے پر لاد کر اس اونچی چوٹی پر پہنچانا ہوگا۔”
یہ سوچ کر اسکا دل مسرت سے جھومنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر اس سرکش کے چہرے پر پڑی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک حیران کن مسکراہٹ لہرا رہی تھی۔
حاکم کا دل یہ مسکراہٹ دیکھ کر لرز گیا۔ یہ نظارہ خود اس کے لئے سزا بن گیا۔ اس نے چیخ کر پوچھا،
“یہ شخص کس طرح سے ایک سزا کو عبادت کی طرح کاٹ رہا ہے ؟”
اس کو معلوم تھا کہ اس جنگ میں مسکرانے والا ہی فاتح ہے اور یہ بات اس حاکم کے لئے کسی سزا سے کم نہ تھی۔
���
ہردوشورہ کنزر، ٹنگمرگ
[email protected]