پرویز مانوس
وہ کافی دیر سے اسٹینڈ پر لٹکی ہوئی گلوکوز کی بوتل کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، گلوکوز کے قطرے جیسے اُس کے دل پر تیزاب بن کر ٹپک رہے تھے جس سے خواہشوں کی کرچیاں اُس کے دل میں چُھب رہی تھیں۔ _ وہ سوچوں کے گرداب میں اس طرح پھنسا ہوا تھا جس طرح کوئی شکستہ کشتی لہروں سے جدو جہد میں مصروف ہواور اُسے اس گرداب سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا “کیا انسان کا حالات پر کوئی بس نہیں؟ کیا اگلے لمحے میں کیا ہونے والا ہے کسی کو معلوم نہیں؟ کیا انسان قدرت کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی ہے _ ؟‘‘
دُنیا………! رشتے………! پیار محبت، سب جُز وقتی ہیں ؟صرف محبت ہی ایک گہرا اور پیچیدہ جذبہ ہے جو انسان کے دل میں کسی کے لئے بے حد لگاؤ، احترام یا عقیدت پیدا کرتا ہے۔ یہ تعلق، قربت، اور احساسِ ذمہ داری کا مجموعہ ہوتا ہے جو انسان کو دوسرے شخص یا کسی چیز کے لیے مخلص اور بے غرض جذبات کے ساتھ جوڑتا ہے۔
لیکن عشق اور محبت میں ہمیشہ وہ جوش اور جنون پایا جاتا ہے جو زندگی کو ایک خواب جیسا بنا دیتا ہے۔ اُس کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
بیوی سے اُس کی محبت کے وہ پل ابھی بھی اُس کے ذہن میں تازہ تھے جب وہ پہلی بار اُسے کالج کے کیفے میں ملی تھی۔ _گہری آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں والی وہ لڑکی اُس کے دل کی دھڑکنوں کو بڑھا دیتی تھی۔ پھر دونوں نے محبت کی راہ اختیار کی اور ڈیڑھ سال قبل اُنہوں نے لَو میرج کی تھی، اور وہ دن دونوں کے لیے خوشیوں کا ایک سلسلہ لے کر آیا تھا۔ بیوی کے ساتھ وہ دن رات محبت کے خواب دیکھتا تھا،کئی مرتبہ تو وہ دفتر سے آدھے دن کی چھٹی لے کر آتا اور بیوی سے بغلگیر ہوکر مخاطب ہوتا۔” جانو……..! اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں تمہارے بغیر کیسے زندہ رہوں گا ؟
وہ اُس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہتی” کیسی فضول باتیں کرتے ہیں آپ؟ ابھی تو ہماری زندگی کا سفر شروع ہوا ہے، یہ کافی طویل سفر ہے جسے ہم محبت سے طے کریں گے کہہ کر وہ اُسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے دیوانے تھے۔ ان کی زندگی میں سب کچھ مکمل اور خوبصورت تھا۔
لیکن محبت کا یہ حسین خواب اُس دن چکنا چور ہو گیا جب بیوی کو سینے میں چُھبن سی محسوس ہوئی تو اُس کے ساس سسر نے اُسے امراض قلب کے ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا ،ڈاکٹر نے تشخیص کے بعد کہا کہ ان کا دل تو ٹھیک ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں پھر بھی اسے انکالوجسٹ کو دکھائیں مجھے ایسا لگتا ہے چُھبن سینے میں نہیں پستان میں ہے۔ اُس نے دوسرے ہی دن شہر کے ایک اچھے انکالوجسٹ سے اپائٹمنٹ لیا ،ڈاکٹر نے NSFC کا ٹیسٹ کرانے کے بعد بیاپسی کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے ہونٹ چبھاتے ہوئے سرہلایا۔ وہ درد، جو اُسے معمولی لگا تھا، اصل میں ایک بہت بڑے طوفان کی آمد کا اشارہ تھا۔ ڈاکٹر نے تشخیص کے بعد بتایا کہ اُس کی بیوی پستان میں کینسر مبتلا ہے _ جیسے ہی اُس نے یہ خبر سُنی، اُس کی دنیا جیسے اُلٹ پلٹ گئی۔ اُس کے اندر ایک خوفناک دھماکہ ہوگیا۔ زندگی کی خوبصورتی اچانک سے اندھیرں میں کھو گئی۔
ڈاکٹر نے تسلی دی کہ یہ کینسر کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اگر بروقت جراحی کر کے پستان نکال دیا جائے تو جان بچائی جا سکتی ہے۔ یہ سُن کر اُس کے ذہن میں بے شمار خیالات نے جنم لیا”اُس کی بیوی بغیر پستان کیسی لگے گی؟”
“لوگ اور یار دوست کیا کہیں گے؟” “کیا میں اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزار سکوں گا؟۔”
یہ سوالات جیسے اُس کے دل و دماغ میں آگ لگا رہے تھے۔ ایک مرد کے لیے اپنی بیوی کا جسمانی بدلاؤ قبول کرنا شاید آسان نہ ہو، خاص طور پر جب اُس کے دماغ میں سماجی دباؤ، روایات، اور مردانگی کا تصور بکھرنے لگے۔ وہ بیوی سے بے پناہ محبت تو کرتا تھا، لیکن اُس محبت میں کہیں نہ کہیں خود غرضی اور جسمانی خوبصورتی کی اہمیت بھی چھپی ہوئی تھی۔ اُس کا دل اور دماغ ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش میں مبتلا ہو گئے تھے۔
ٹیسٹ کرانے اور صلاح و مشورے میں دن دن گزر رہا تھا اور ایک ٹیسٹ ممبئی بھیجا گیا تھا۔ ادھر بیوی کی حالت بگڑ رہی تھی ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق اُسے جلد از جلد اسپتال میں داخل کرانا ضروری تھا۔ ممبئی کے ایک بڑے اسپتال سے رپورٹ آنا ابھی باقی تھی، لیکن اُسے بیوی کو علاج کے لئے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے لیکن احتیاط کے طور پر اُسے پہلے ہی اسپتال میں بھرتی کرانا چاہئیے اگر آپریشن میں تاخیر کی گئی تو کینسر پورے جسم میں پھیل جائے گا۔
بیوی کو اسپتال میں بھرتی کرانے کے بعد وہ اسپتال کے کمرے میں بیٹھا گہری سوچوں میں گم تھا۔
ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق نرس نے اُس کی بیوی کے بازو میں گلوکوز لگا کر بوتل کو اسٹینڈ پر لٹکا دیا تھا اوراب بوتل سے قطرے آہستہ آہستہ ٹپک رہے تھے۔ وہ اُن قطروں کو دیکھ کر وہ سوچ رہا تھا کہ اُس کی بیوی کا مستقبل کیا ہو گا؟ “وہ ایک پستان کے بغیر کیسی لگے گی؟” اُس کے دماغ میں بار بار یہی سوال گردش کر رہا تھا۔
اُس کی آنکھوں کے سامنے عجیب و غریب اور خوفناک تصورات آ رہے تھے۔ وہ اپنی بیوی کو ایک نامکمل اور بدنما حالت میں دیکھ رہا تھا ۔
پر یشانی کے عالم میں اُسے سگریٹ ہی اپنا سچا ساتھی لگا جسے اُس نے بیوی کے کہنے پر کئی ماہ قبل ترک کر دیا تھا۔ آج پھر سُلگا کے کھڑا ہو کر کمرے میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا، دفعتاً اُس کی نظر الماری کے آئینے پر پڑی جس میں سے اُس کا عکس اُس سے کہہ رہا تھا۔
” کیا سوچ رہے ہو؟
کچھ نہیں وہ جھنجھلا تے ہوئے بولا،
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟
تم ،تم کہنا کیا چاہتے ہو، اُس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا جیسے اُس کی چوری پکڑی گئی ہو _
یہی نا کہ اس آدھے ادھورے جسم کے ساتھ باقی زندگی کیسے گزاروگے؟
نہیں ……! میں نے اُس سے محبت کی ہے _
محبت….. ہاہاہاہا…. تمہارے لئے محبت کی منزل شادی ہے لیکن سچے پیار کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
نہیں مجھے اُس سے حقیقی محبت ہے _
جھوٹ بالکل جھوٹ…..،، تم کو محبت اُس کے جسم سے ہے، اُس کی خوبصورتی ہے،
نہیں یہ جھوٹ ہے۔۔۔!
یہ سچ ہے، تمہاری محبت میں ہوس پوشیدہ ہے، تم کبھی بھی اُس کے آدھے جسم کو قبول نہیں کرسکو گے،
کیوں نہیں کروں گا،
اس لئے کہ یہ بہت بےرحم بیماری ہے ،ہوسکتا ہے کل کو کینسر دوسرے پستان میں بھی نمودار ہو پھر اُسے بھی نلال دینا پڑے تو..؟
اس سوال پر اُس کا ماتھا ٹھنکا،
اچانک اُس کے ذہن میں ایک خیال آ گیا، “کیا میں اس کی تکلیف کو ختم کر سکتا ہوں؟” لیکن یہ فیصلہ اُس کے لئے آسان نہ تھا، اُس نے وہ کھڑا ہو کر کمرے میں ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد ایک بھرہور نظر اپنی بیوی پر ڈالی جو گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی ۔ اُس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی اور پھراُس نے آہستہ آہستہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک انجکشن نکالا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، لیکن اُس نے جیسے اپنے دل کو مضبوط کر لیا تھا۔ اُس نے سرنج میں انجکشن بھرا اور پھر کانپتے ہاتھوں سے گلوکوز کی بوتل میں داخل کر دیا۔ یہ لمحہ اُس کی زندگی کا سب سے مشکل لمحہ تھا لیکن اُس نے خود کو یہ یقین دلایا کہ دونوں کے لئے یہی درست فیصلہ ہے۔
انجکشن بھرنے کے بعد اُس کا دل انجام سے گھبرانے لگا تو وہ ہڑبڑاہٹ کے عالم میں جلدی سے کمرے سے باہر نکلنے لگا لیکن اچانک دروازے پر اُس کا سامنا متعلقہ ڈاکٹر سے ہو گیا۔ ڈاکٹر خوشی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا، “مبارک ہوبھئی …….! ممبئی سے فائنل رپورٹ آ گئی ہے۔ اب ان کا پستان کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیمو تھرپیوں سے ہی کینسر ٹھیک ہو جائے گا!”
یہ سن کر اُس کے قدم جم گئے۔ اُس کا پورا جسم جیسے بے جان ہو گیا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا، اُس کے ہاتھ لرزنے لگے اور اُس نے اپنے دونوں کانوں پر رکھ لئے، اُس کے اندر جیسے کوئی طوفان تلاطم اُٹھا رہا تھا۔ اُس نے چیخ کر کہا، “نہیں ں ں ں!”
ڈاکٹر حیرانی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا، “یہ کیسا ردِعمل ہے؟” ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوشخبری سن کر وہ اس قدر حیران اور پریشان کیوں ہو رہا ہے؟
ٍڈاکٹر نے اُس کی جانب حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” یہ اچھی خبر سُن کر تمیں تو خوش ہونا چاہئے لیکن تم….؟
وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر سوچ رہا تھا کہ وہ ڈاکٹر کو کیسے بتائے کہ اُس نے بیوی سے جان چھڑانے کے لئے اُس کے گلوکوز کی بوتل میں زہر کا انجکشن بھر دیا ہے۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9622937142