سائرہ الفت۔کوکر ناگ
مسلمان جو کہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُن پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین ، دین اسلام ہے۔ ہاں!اس میں کوئی شک نہیں لیکن غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہیں،تو آج اتنے ذلیل و خار کیوں ہیں ؟غور کیجئے،کیا یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر رحمت ہے یا ذِلت ؟ درحقیقت اللہ کا وعدہ تو بالکل سچا ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم وہی مسلمان ہیں، جن مسلمانوں کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ یہ جنت کے حق دار ہیں۔ ہرگز نہیں! بلا شبہ مسلمان نام کا مطلب ہی ہے ’’فرما ںبردار‘‘ ہے۔ مگر کس کا ؟ اپنے نفس کا،اپنے سرداروں کا ،جاہل لوگوں کا ، مغر بی تہذیب کا ،یا پھرچوروں اور لٹیروں کا؟
مسلمان کو سب سے زیادہ فرمانبردار صرف اور صرف اس کا ہونا چاہئے ، جس کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں ۔ جس نے اُسے پیدا کیا ہے،جس نے اُسےجینا سکھاتا ہے، جو اُس کا حقیقی مالک ہے، جو واحد ہے اورجس کی مرضی سے کائنات چلتی ہے۔ بظاہرتو ہم مسلمان ان باتوں کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان باتوں کو نہ مانتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہیں گویا ہمارے ساراعمل غیر مہذبانہ اور دعویٰ مسلمانہ !نافرمان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ اس کا خالق و مالک اُس سے راضی ہویا بیزار ۔ نافرمان جو بھی کوئی کام کرتا ہے،اُس میں محض اُس کی اپنی خواہشات ، اپنےنفس،اپنے نجی مفادات،اپنی دنیاوی زندگی اور دنیاوی معاملات کی ہی پیروی ہوتی ہے اور جن کاموں کو کرنے سے اُسے خالق و مالک نے منع کررکھا ہے،وہ اُنہی کاموں میں مگن رہتا ہے۔ مسلمان اور کافر میں فرق ، قول وفعل اورعلم و عمل سے ہی ہوتا ہے ۔ہاں! ہم مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے، ہمارا مسلمان نام رکھا گیا تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مسلمانیت وراثت میں ملی ہے اور کوئی غیر مسلم گھر میں پیدا ہوا اوراس کا نام کچھ رکھا گیا تو اس کا بھی ہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کا فر ہے۔ اگر وہ علم حاصل کرتا ہے ، حقیقی علم سے آراستہ ہوتا ہے، دین اسلام کو سمجھتا ہے، اپنے ربّ پر ایمان لاتا ہے اور صالح عمل کرتا ہے تو وہ پھر وہ حقیقی معنوںمیں مسلمان کہلاتا ہے ۔
غور و فکر کے بغیر ابراہیم ؑ نے بھی اللہ تعالی کو نہیں پایا ، ورنہ وہ تواُس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوبُت پرست تھے ، لیکن غور و فکر ، عقل و شعور نے ہی آپؑ کو اللہ تعالیٰ سے ملایا ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک پڑھ کر ہی ہمیں معلوم ہوجاتا ہےکہ کس طرح آپؐ غار میں جا کے غور و فکر کرتے تھے اوربُت پرستی سے دور بھاگتے تھے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں عقل و فہم کا سامان مہیا رکھا ہے لیکن کیا ہر انسان اس کا موثر استعمال کرتا ہے؟ مسلمان پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان تھا کہ اس نے اُسے مسلمان بنایا تھا، اپنی کتاب دی تھی ،وہ کتاب جو تحریف سے محفوظ اور شک و شبہات سے صاف وپاک ہےاوربے نظیر قانون ِ ہدایت ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ ’’ خدا کا یہ احسان نہ بھولو کہ اُس نے تم پر ’قرآن‘ اُتارا اور عقل کی باتیں بھیجیں،منظور یہ ہے کہ تمہیں ان حکموں کے یا کتاب کے ذریعے سے نصیحت کرے۔‘‘چنانچہ یہ بھی ارشاد ہے کہ قرآن کا مقصودلوگوں کو سمجھانا ہے لیکن ہدایت اور نصیحت تو اِس سے وہی لوگ پکڑتے ہیں جن کے دِل میں خدا کا خوف ہے۔قرآن میں وہ اصول ہیں جو علمی قوتوں کا سر چشمہ ہیں۔لیکن کیا ہم ان پر غور کرتےہیں ، کیا ان پر ہم عمل آور ہیں ؟ لہٰذاجب ہم وہی چیزیں ،وہی کام اوررسم و رواج اپنی زندگیوں میں شامل کئےہوئے ہیں جو ایک نافرمان کرتا ہے تو بھَلا ہم کس طرح مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو ہمت، جذبے، رحم دلی، بہادری، جذبات ، سچائی سے نوازا تھا ۔ لیکن ہم نے اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں بنایا کہ ان کا بہتر استعمال کرسکیں اور دنیا پر غالب ہوسکیں۔ مسلمان نےجب سے قرآن مجید کو محض ایک کتاب سمجھ کر تاک پرسجاکے رکھ دیا، تب سے ہی اُس کے نصیب میں ذلالت و خواری آگئی ۔جب سےاُس نے اپنی من مانی ، اپنے نفسِ شیطان کےخواہشات کی پیروی کی، تبھی سے اُس کی پستی کاآغاز ہوگیا ۔ جب وہ خود کو کافر کی طرح آزاد سمجھنے لگے، تب سے وہ دوسروں کا غلام بن بیٹھا ۔ جس قدر لا پرواہی اختیار کرتا رہا اُسی قدر غفلت کی دنیا میںچلا گیا۔یہاں تک کہ حلا ل اور حرام میں فرق کرنا تک بھول گیا۔غیر مسلم تہذیب و تمدن کا متوالا بن گیا اور اس طرح مسلمان بذات خود عرش سے گِر کر فرش پر آگیا۔اگرچہ اُس کےہاتھ بڑے اور اوپر والے تھے مگر آج ہر کسی کے سامنے نچلا ہاتھ بنا ہوا ہے۔ مسلمان کے سرتو اللہ کے ہی سامنے جھکتےتھے اور اُسی کے لیے تن سے جُدا ہوتے تھے، لیکن آج یہ سَرکئی اوروں کے سجدوں میں پڑے رہتے ہیں۔ الغرض اپنی پستی ،اپنی ناکامیوں اور اپنی بربادیوں کاذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ لہٰذا ابھی وقت ہے کہ مسلمان خود کا جائزہ لے ۔غفلت سے بیدار ہوجائے،پستی سے باہر نکلنے کی کوشش کرے،اپنی ذمه داریاںسمجھے، اپنے آپ کو آزاد نہ سمجھے اوراپنے اُس کلمہ کو یاد کرکے غور و فکر کرے ۔ جس کلمہ کوپڑھتے وقت اُس نے کس چیز کا اعتراف کیا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔