الطاف جمیل شاہ
انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے، اس کا اثر اس کی صحت پر پڑنا لازمی ہے۔ اسی لئے کھانے پینے میں احتیاط ضروری ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ اسے صحیح غذا ملے۔ لیکن غذا کے نام پر لوگوں کو زہر کھلانا اس وقت سب سے بڑا فتنہ ہے۔انسان کی بقا اور صحت کا انحصار اس کی خوراک پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’جو کھاتے ہو، وہی بنتے ہو‘‘ (You are what you eat)۔ ایک صحت مند جسم اور دماغ کے لیے متوازن اور خالص غذا ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں غذا ایک خالص ضرورت سے زیادہ ایک خطرناک ہتھیار بن چکی ہے۔ منافع کی ہوس میں کچھ لوگ ایسی غیر معیاری اور مضرِ صحت اشیاء بازار میں بیچ رہے ہیں جو کھانے کے نام پر انسان کو سست روی سے زہر دے رہی ہیں۔بازاروں میں نقلی اور غیر معیاری ادویات کی خریدو و فروخت کا بازار بھی گرم ہےاوریہ فتنہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب کسی بھی چیز میں خالص اور غیر خالص میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پھلوں کو مصنوعی طریقوں سے پکایا جا رہا ہے، سبزیوں پر ایسے کیمیکل اسپرے کیے جا رہے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ دودھ میں پانی، یوریا اور دوسرے خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ عام ہے۔ کھانے پکانے کے تیل میں ملاوٹ، مصالحوں میں ریت یا لکڑی کا برادہ اور مٹھائیوں میں غیر معیاری رنگوں کا استعمال عام بات ہے۔ یہ سب نہ صرف ہماری قوتِ مدافعت کو کمزور کر رہے ہیں بلکہ کینسر، گردے اور جگر کی بیماریوں اور دیگر کئی مہلک امراض کا سبب بھی بن رہے ہیں۔اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ متعلقہ اداروں کی غفلت ہے۔ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عام لوگوں میں بھی آگاہی کی کمی ہے۔ وہ صرف قیمت دیکھ کر چیز خرید لیتے ہیں، اس کے معیار پر توجہ نہیں دیتے۔اس سنگین مسئلے کا حل صرف ایک یا دو لوگوں کی ذمہ داری نہیں۔ اس کے لیے حکومت، متعلقہ اداروں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ فوڈ سیفٹی کے قوانین کو مزید سخت بنائے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ ملاوٹ کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ یہ دوسروں کے لیے عبرت بنے۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ صحت دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ انہیں اپنی خوراک کے معیار پر توجہ دینی چاہیے اور ہمیشہ ایسی چیزیں خریدنی چاہیے جن پر انہیں بھروسہ ہو۔ جو شک و شکوک سے پاک ہوں ،حالیہ مہینوں کے دوران وادی کے اطراف و اکناف میںجو صورت حال سامنے آئی کہ کہیں پر گوشت کے پیکٹس برآمد ہوتے رہے تو کہیں پر سڑے گوشت کی مختلف ڈشز۔ حد تو یہ ہوئی ہے کہ جانوروں کے سَر اورپایے بھی ملے اور وہ بھی بوسیدہ۔ یہ بات بھی سماعتوں سے ٹکرائی کہ حرام اور مردار جانوروں کا گوشت تک فروخت ہورہا ہے،جبکہ بڑے مقدار میں بوسیدہ گوشت کی برآمدگی سب کے لئے چونکا دینے والی بات تھی ۔بے شک اس میں متعلقہ محکمہ کی کارکردگی قابل تحسین اور حوصلہ افزاء رہی۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بات یاد رکھنے کے لئے اہم ہے ، وہ یہ کہ عوام نے بھی بے لگام نفس خبیثہ کو چھوٹ دے رکھی ہے، کوئی احتیاط نہیں جو ملا کھالیا ۔اپنے لئے غذائیت کا کوئی بہتر اور مناسب لائحہ عمل نہیں بلکہ بس کھانا ہے سو کھانا ہے ۔
انسان کی زندگی میں سب سے بڑی کشمکش اس کے اپنے نفس کے ساتھ ہوتی ہے۔ نفس ایک ایسی قوت ہے جو ہمیں مسلسل اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے پر اُکساتی ہے۔ یہ خواہشات کھانے، پینے اور دیگر جسمانی لذتوں سے متعلق ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیں تو یہ ہمیں ایسی راہوں پر لے جاتا ہے جو ہماری صحت اور خوشی دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا اپنے نفس کو قابو میں رکھنا نہ صرف ایک اخلاقی ضرورت ہے بلکہ یہ ہماری صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
جب ہم اپنے نفس پر قابو نہیں رکھتے تو ہم اکثر بے تحاشا اور غیر ضروری کھاتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عذاب ہے جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ بہت زیادہ کھانا کئی طرح کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، جیسے کہ موٹاپا، جس سے وزن بڑھتا ہے اور دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ زیادہ کھانے سے نظامِ ہاضمہ پر دباؤ پڑتا ہے، جس سے بدہضمی، تیزابیت اور قبض جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ کھانے سے جسم سست اور تھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا جسم کھانے کو ہضم کرنے میں زیادہ توانائی صرف کرتا ہے، جس سے ہم سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نفس پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ کچھ طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکتے ہیں،مثلاً متوازن اور صحت بخش غذا کا انتخاب کریں،اپنے کھانے میں پھل، سبزیاں اور اناج شامل کریں۔ اپنے کھانے کے اوقات مقرر کر لیں،کم مقدار میں کھائیں اور ہر لقمے کو اچھی طرح چبا کر کھائیں۔ آپ کم کھائیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں، کیونکہ ورزش کرنے سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ یہ ذہنی سکون بھی فراہم کرتی ہے۔
اپنے نفس پر قابو پانا صرف کھانے سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نفس پر قابو پانے سے انسان کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اس سے ہماری صحت بہتر ہوتی ہے، ہمارا ذہن پرسکون رہتا ہے اور ہم اپنی زندگی میں زیادہ خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نفس پر قابو پانا ایک کامیاب اور صحت مند زندگی کی بنیاد ہے۔ اپنے نفس کو لگام دیں اور صحت مند اور خوشحال زندگی کی طرف قدم بڑھائیں۔وادی میں کثرت ان لوگوں کی ہے جو اہل ایمان کے قبیلے سے ہیں اس لئے چند باتیں اس سلسلے میں عرض ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور جن میں انسان کو کھانے پینے کی ترغیب و نکیر بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانی صحت کے لئے غذائیت کی پاکیزہ اور صحیح رہنمائی بھی فرماتے ہیں تاکہ غیر معیاری، ناپاک ، بوسیدہ اور مضر صحت غذائیت سے انسان محفوظ رہیں اور ان سے پیدا ہونے والے مختلف امراض سے بھی۔ حلال و پاک چیزیں دسیوں بیماریوں سے انسان کو نجات دے سکتا ہے لیکن حلال کے بعد جس پاک کا تصور دیا گیا ہے یہ مفہوم کے لحاظ سے وسیع معنیٰ رکھتا ہے بس سمجھنے کی ضرورت نہیں، بس یہ نکتہ یاد رہے کہ صرف حلال کافی نہیں بلکہ غذا کا پاک و صاف ہونا بھی لازمی ہے ۔
شراب ایک ایسا غلیظ مشروب ہے جو انسانی صحت دل و دماغ کے لئے انتہائی زیادہ مضر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیا ،اسی پر سوچیں جو بھی غذائیں انسانی صحت کے لیے مضر ہوں، ان کا استعمال بھی حرام ہے۔مناسب خیال ہے یہ جو ہمارے بے لگام نفوس ہیں ، صورت حال ایسی ہے کہ کھاتے کھاتے رہنا اب ہماری عادت ہی نہیں بلکہ ضرورت بن گئی ہے۔ احادیث کی روشنی میں ہم اپنی غذائیت کا انتخاب کریں تاکہ ہمارا جسم صحت مند بن سکے۔