سرور ِ کونینؐ
سبدر شبیر
دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی آزمائش، غم یا مشکل کا شکار ہوتا ہے۔ یہ زندگی خوشی اور غم، راحت اور تکلیف کا امتزاج ہے۔ لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کے لیے سہارا، روشنی اور امید کی کرن بن جاتی ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ایسی ہی ہستی ہے جو نہ صرف اپنے وقت کے لوگوں کے لیے بلکہ تاقیامت ہر غمزدہ، دکھی اور پریشان حال کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ آپؐ کی شفقت اور محبت کسی خاص طبقے، نسل یا زمانے تک محدود نہیں بلکہ ایک ایسے سمندر کی مانند ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَمَا أَرسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين‘‘ (الأنبياء: 107)
یہ آیتِ مبارکہ واضح کرتی ہے کہ آپؐ کی رحمت کسی ایک قوم، خطے یا وقت کے لیے مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے۔ آپ ؐ نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، درختوں، غلاموں، بیواؤں، یتیموں اور حتیٰ کہ دشمنوں تک کے ساتھ بھی بے مثال شفقت اور مہربانی کا سلوک فرمایا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراسر محبت، شفقت اور رحمت سے عبارت تھی۔ آپؐ نے ہمیشہ غریبوں، مسکینوں، بے کسوں اور محتاجوں کی مدد فرمائی۔ آپؐ کے اخلاق کا عالم یہ تھا کہ جو بھی آپؐ کے قریب آیا، وہ آپ کی مہربانیوں کا گرویدہ ہو گیا۔ یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک نبی کریم ؐ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا:’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔‘‘ (مسلم)اور ساتھ ہی آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو قریب کرکے دکھایا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ آپؐ یتیموں کو کتنا قریب رکھتے تھے۔ نبی کریم ؐ نے غلاموں کو معاشرے میں عزت دی اور انہیں حقوق عطا کیے۔ حضرت زید بن حارث جو ایک غلام تھے، نبی کریم ؐ کے حسنِ سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آزادی ملنے کے باوجود آپؐ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ نبی کریمؐ کا کرم صرف اپنوں تک محدود نہ تھا بلکہ آپ نے دشمنوں کے ساتھ بھی مثالی سلوک فرمایا۔ فاتحِ مکہ کے موقع پر جب قریش کے وہ لوگ جنہوں نے آپؐ پر ظلم کیے تھے، آپ کے سامنے بے بس کھڑے تھے، تو آپؐ نے فرمایا:’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو!‘‘
جب ہم کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی رحمت وہ سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کی شفقت، محبت اور کرم کی کوئی حد نہیں۔ جیسے سمندر کی گہرائی اور وسعت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، ویسے ہی نبی کریم ؐ کی رحمت کو بھی مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔آپ ؐ کی زندگی میں ہر ضرورت مند کے لیے کوئی نہ کوئی سہارا موجود تھا۔ آپؐ کا دستِ کرم سب پر یکساں تھا۔ اگر کوئی بھوکا ہوتا تو آپؐ اسے کھانا کھلاتے، کوئی دکھی ہوتا تو اس کا دکھ بانٹتے، کوئی بیمار ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے۔
نبی کریمؐ کی رحمت سے آج کے انسان کو کیا سیکھنا چاہیے؟آج کے دور میںجہاں بےچینی، پریشانی، غم اور دکھ عام ہیں، ہمیں نبی کریمؐ کی سیرت سے رہنمائی لینی چاہیے۔دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا،یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کی مدد کرنا،دوسروں کو معاف کرنا اور درگزر کرنا،ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا اور صبر سے کام لینا۔ـاگر ہم اپنی زندگیوں میں نبی کریمؐ کی سیرت کو اپنا لیں، تو معاشرہ حقیقی امن، محبت اور بھائی چارے کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ایک بے کنار سمندر کی مانند ہے، جس سے ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق فیض یاب ہو سکتا ہے۔ آپؐ کا اسوہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں حقیقی سکون دوسروں کی مدد اور ان کے دکھ درد بانٹنے میں ہے۔ اگر ہم واقعی نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا میں کوئی شخص غمزدہ نہ رہے۔اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم نبی کریمؐ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غمزدہ دلوں کے لیے راحت اور سہارا بنیں۔ آمین
(رابطہ۔9797008660)
[email protected]