ارشاد احمد حجام
وادی کشمیر پورے عالم میں نہ صرف اپنے حسن و جمال اور فطری خوبصورتی کی بنا پر مشہور ہے ، بلکہ علم و ادب کے حوالےسے یہ جنت نما وادی ہمیشہ سے ہی بے نظیر اور مقبول رہی ہے اور اسی بنا پر علامہ اقبال ؔ یوں رقم طراز ہیں ؎
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
علاقہ ترال اسی سر زمین کا ایک زرخیز علاقہ ہے ، جس کا نام سن کر زندگی سے جڑے ہر شعبے سے ان عظیم لوگوں کا نام سامنے آ جاتا ہے جن کا تعلق ترال سے ہے اور جنہوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ اگر ہم شعر و شاعری کی بات کریں تو سر زمین ترال نے بھی کئی مشہور و معروف شعراء پیدا کئے ہیں، جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ ساتھ علاقہ ترال کا نام بھی روشن کیا ۔
ان شعراء میں رجب حامد ، اسد اللہ کا نٹر غالب ،ٹھا کر سنگھ زخمی، غلام احمد وانی حیا، ستیش ومل ، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ بھی درجنوں کی تعداد میں شعراء حضرات اپنے زرین خیالات سے کشمیری ادب کے سرمایہ میں بیش قیمت اضافہ کر رہے ہیں۔اسی سلسلے میں اتوار کے روز یعنی 17 دسمبر 2023ء کو بزم ادب ترال کی طرف سے دو کشمیری شعری مجموعوں کی رسم رونمائی کی گئی ان میں ایک کتاب ’’نالہ صباح‘‘ جو ماسٹر غلام نبی ہویدا اور دوسری ’’بہارس چھ دوکھ‘‘ نذیر عاصم کی ہے۔
غلام نبی ہویدا سب ضلع ترال سے چودہ کلومیٹر دوری پر واقع سر بہ فلک اور سر سبز جنگلوں کی آغوش میں آباد ایک گاؤں ستورہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جی ہاں! یہ گاؤں کشمیری زبان کے ایک قد آور شاعر اور ’’ افسوس دنیا‘‘ نغمے کے خالق رجب حامد صاحب کا آبائی گاؤں ہے ۔ سونے پے سہاگے والی بات یہ ہے کہ رجب حامد صاحب ، غلام نبی ہویدا کے ماما جان بھی ہیں۔ غلام نبی ہویدا صاحب 1951ء کو ترال ستورہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوا ۔ پھر انکی پرورش رجب حامد صاحب کی سر پرستی میں ہوئی۔
ہویدا ؔصاحب بچپن سے ہی بے حد ذہانت کے مالک تھے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کا بھی بہت شوق تھا ۔ گھر کی مالی دشواریوں اور دیگر مشکلات کے باوجود آپ نے گورنمنٹ ہائی اسکول نور پورہ ترال سے 1967 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ ہویدا صاحب کو معلم بننا شوق ہی نہیں بلکہ جنون تھا۔اگر چہ انہیں کئی سرکاری محکموں میں کام کرنے کا موقعہ ملا ، لیکن انہوں نے اپنے خواب کے خاطر ان کو ٹھکرا دیااور آخر کار وہ ایک پرائیوٹ استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بارہ بیش قیمتی برس روپ ریشی اسلامیہ اسکول کچھمولہ ترال میں پہلے استاد اور پھر اسکول سربراہ کے بطور گزارے۔جہاں انھوں نے سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ کو پڑھایا اور درس و تدریس کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ انہیں انگریزی ، اردو اور ریاضی مضامین میں دسترس حاصل تھی ۔ اس کے بعد اپنے گاؤں والوں کے سخت اسرار پر انھوں نے تقریبا پندرہ سال تک سید بخاری میموریل اسکول ستورہ میں بحیثیت سکول سربراہ اپنے فرائض احسن طریقے سےانجام دیے ۔ اس کے علاوہ صبح اور شام کے اوقات کوچنگ کا اہتمام بھی کرتے تھے اور آس پاس کے ہر گاؤں سے بڑی تعداد میں طلبہ ان سے تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ وہ بے لوث انداز میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
ہویدا صاحب بچپن سے ہی رجب حامد صاحب کی شاعری قلمبند کرتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے آٹھویں جماعت سے ہی شعر و شاعری کی شروعات کی اور ابتداء میں حامد صاحب ہی انکی شاعری کی اصلاح کرتے رہے ۔ ہویدا صاحب کشمیری زبان کے علاوہ اردو اور فارسی میں بھی شعر کہتے آرہے ہیں اور ایک اچھا خاصا ذخیرہ کلام موجود ہے جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔ہویدا صاحب نے دو طویل مثنویاں ’’ نور الصبا ‘‘ اور ’’ قصہ حضرت داود علیہ السلام‘‘ کے نام سے بھی لکھی ہیں ، وہ بھی ابھی شائع نہیں ہوئیں ہیں ۔ آج ہویدا صاحب کی جو کتاب ’’ نالہ صباح ‘‘کے نام سے ہمارے سامنے آگئی، یہ ایک کشمیری شعری مجموعہ ہے جو نعت،منقبت اور غزلیات پر مشتمل ہے۔ مذکورہ کتاب کے آغاز میں ہی وادی کشمیر کے دو بڑے پروفیسر ، ادیب، شاعر اور نقاد ، محقق پروفیسر ڈاکٹر شاد رمضان صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر مجروح رشید صاحب کے تجزیے بھی موجود ہیں جو انھوں نے متعلقہ کتاب کے متعلق تحریر کیے ہیں ۔ وہ دونوں ہویدا صاحب کی شاعری کو کشمیری شعر و ادب کیلئے ایک قیمتی اضافہ قرار دیتے ہیں ۔ انکے مطابق ہویدا صاحب نے روایتی شاعری کے ساتھ ساتھ اس میں جدید تکنیکی ہیت بھی قائم کی ہے ۔ان کی شاعری میں ردیف ، قافیہ ، بحر اور شاعری اصطلاحات کا مناسب اور برملا استعمال نظر آتا ہے۔
ہویدا صاحب ایک فطری شاعر ہیں ۔ ان کے منہ سے بے ساختہ شعر نکلتے رہتے ہیں ۔ اب آنے والے زمانے میں معلوم ہوگا کہ انکی شاعری کتنی مقبولیت حاصل کرے گی۔وہ دراصل ایک صوفی شاعر ہیں ، انکی شاعری میں تصوف کے موضوعات جابجا نظر آتے ہیں ۔انھوں نے روایتی صوفی شاعری کی حسین روایت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں تکنیکی ہیت اور شاعری اصطلاحات کا بھی بہترین انداز میں استعمال کیا ہے۔ تصوف کے علاوہ انکی شاعری میں سماجی اور عصری موضوعات بھی نظر آتے ہیں۔ہویدا صاحب آج کل بزرگی کے دن گزار رہے ہیں، لیکن ان کا قلم آج بھی جوان ہے اور ہمہ وقت شیرین کلام کو الفاظ کا روپ دینے میں مصروف ہے ، ہم الله سے دست بہ دعا ہیں کہ ہویدا صاحب کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رہے ۔ ہمارا پورا علاقہ انکی بے لوث علمی خدمات کے اعتراف میں ان کا احترام کرتے ہیں۔
رابطہ۔ ستورہ ترال ،پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر ۔ 9797013883