ایس حسن انظر
لام محمد شاہ جوہر ( 2025 _۔ 1937ء) گامرو ، بانڈی پور کے اسی نامی گرامی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو مورخ غلام حسن شاہ کھویہامی اور ہر دلعزیز نعت گو شاعر عبدالاحد نادم کی وجہ سے پہلے ہی سے بہت مشہور رہا تھا ۔ ان کے دادا عبدالقادر شاہ اور نادم اصل میں مورخ غلام حسن شاہ کے نواسے تھے اور بچپن میں ہی یتیم ہوجانے کی وجہ سے والدہ کے ساتھ رعناواری سرینگر سے منتقل ہوکر ان کے یہاں گامرو میں ہی سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ یوں غلام محمد شاہ جوہر نے اپنی ابتدائی زندگی گامرو میں گزاردی اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اے جی آفس میں بطور کلر ک ملازم ہوگئے۔ آگے چل کر ترقی یاب ہوکر آڈیٹر بن گئے اورملازمت کے باعث ہی گامرو سے واپس سرینگر منتقل ہوکر قمرواری میں بسنے لگےاور وہیں پر تقریباً اٹھاسی سال کی عمر میں وفات پاکر مدفون بھی ہیں۔انہوں نے درویشا نہ انداز میں پوری زندگی گزاری ۔ تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کو پالنے پوسنے میں ویسی ہی معاشی مشکلات جھیلیں جیسی کہ عیال کثیر والا ہر ایماندار سرکاری ملازم جھیلا کرتا ہے۔ دوران ملازمت بھی فرصت کے لمحات میں اردو، فارسی اور کشمیری میں کبھی کبھی شعر گوئی کیا کرتے تھے اور سبکدوش ہونے کے بعد اور بھی زیادہ دلچسپی دکھلائی، جس کا نتیجہ بیاض جوہر میں شامل خوبصورت کلام ہے اور شاید کچھ حصہ تلف بھی ہوگیا یا ہنوز اشاعت طلب بھی ہو۔ زیر بحث بیاض کی اشاعت مختلف وجوہات کی بناء پر 2023ء سے پہلے عمل میں نہ آسکی اور جب تاخیر سے ان کی صاحبزادیوں نے چھپوادیا تب جوہر صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نوک پلک سنوارنے اور کانٹ چھانٹ کی کافی گنجائش رہ گئی ہے۔ خاص طور سے مولانا رومی، جامی اور علامہ اقبال کا وہ کلام خارج کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ان کی ذاتی ڈائری میں لکھا ہوا تھا اور ناشر الحیات پبلشر س اور مولفین نے بلا وجہ ان کے طبعزاد کلام کے ساتھ نتھی کرکے شائع کروایا ہے۔ یوں مولفین کی جیبوں پر بھی بلاوجہ اچھا خاصا بوجھ پڑ گیا ہے۔امید ہے کہ یہ خامی اشاعت ثانی کے موقعے پر دور کی جائے گی۔
اب آئیے غلام محمد شاہ جوہر کی اصل شاعری کی طرف بھی چلتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بتانا مناسب لگتا ہے کہ شاعر نے اپنی خاندانی وراثت اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے حمدیہ ، نعتیہ موضوعات اور الٰہیات کی طرف ہی سب سے زیادہ توجہ کی ہے، اگر چہ ارضی تعلقات اور معاملات سے بھی تعرض نہیں کیا ہے۔ غرض اس بیاض میں گوناگوں قسم کے موضوعات اور حقیقی زندگی میں جھیلے ہوئے تجربات کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں زبان بخشی گئی ہے۔ نمونے کے طور پرسب سے پہلے اردو کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
۱
۔میری ہستی کچھ نہیں، بس ایک مشت خاک ہوں
سوزش پیہم سے جاں ہے جاوداں تیرے لئے
۲۔ بے قراری ہے مرا سرمایہ راز حیات
سنگ خارا سے ہوا جوہر عیاں تیرے لئے
۳۔ صبح وہ جس میں نوبہار ملے
شام وہ جس میں غمگسار ملے
۴۔ بھول جانے کے ارادے اور تڑ پانے لگے
بھول کر ان کا تصور بار بار آنے لگا
۵۔ اس طرح جوہر کبھی محبوب کا شکوہ نہ کر
وہ جنازے پر ترے دیوانہ وار آہی گیا
اردو حصہ بیاض میں غزلوں کے ساتھ ساتھ کئی نظمیں، رباعیات اور قطعات اور کچھ مرثیے بھی شامل ہیں، جن میں سے حضرت شاہ ہمدان کی آمد کشمیر کے حوالے سے،علامہ اقبال کی عقیدت میں اور والدین وفات پر علیحدہ علیحدہ تعزیتی اظہارات وغیرہ خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں۔اسی طرح سے کشمیری کلام کے حصے میں بھی حمدیہ اور نعتیہ منظومات کے ساتھ ساتھ غزلیات اور دیگر اصناف سخن میں لکھا گیا دل چسپ کلام بھی شامل ہے۔نمونے کے طور پریہاں صرف چند غزلیہ اشعار ہی پیش کئے جاتے ہیں۔
کران واراہ تمنا حسن دلبر روبرو وُچھنک
وچھن کیت خام کارس طاقت دیدار آسن گوژھ
میہ لولن رز کرم ،کورنس مسافر ستئی بے گانس
میہ دوہ ما اڈہ وتئے لوسیم ڈیم یتھ ناو کس تارو
ژے وز ناویتھ میہ دلہ چیے تارہ سر گو فاش پیو بازر
سراپا راز اوسس فاش کورتھس کیاز دلدارو
حصہ کلام فارسی میں بھی ان کی خوبصورت شاعری شامل ہے لیکن ان کے طبع زاد کلام کو شعراء متقدمین کے معروف کلام سے الگ کرنے پر ہی اس کی طرف مناسب توجہ دی جاسکتی ہے جو اشاعت دوئم کے موقعے پر ہی ممکن العمل ہے۔