مشتاق احمد بٹ
انسان دنیا میں آتا ہے، کچھ وقت گزار کر رخصت ہو جاتا ہے، لیکن وہی لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو اپنے مختصر زندگی میں ایسا نقش چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جائے۔ انہی میں ایک نام غلام محمد بٹ کا بھی ہے، ایک خداداد صلاحیتوں کے حامل فنکار، جن کی سریلی آواز اور طلسماتی تمبکناری کی گونج آج بھی کشمیری دلوں میں محفوظ ہے۔بٹ صاحب 1925ء میں اننت ناگ کے علاقے ملک ناگ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن ہی سے موسیقی کی طرف رجحان رکھتے تھے اور اپنے پیر و مرشد کی روحانی سرپرستی میں اس فن کو جلا بخشی۔ اس وقت ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ راج تھا اور مسلمانوں کے لئے تعلیمی مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے ’’گبہ سازی‘‘ کو ذریعہ معاش بنایا۔کاڑی پورہ میں گبہ سازی کے دوران وہ کشمیری صوفی کلام گنگناتے رہتے، آواز میںاتنی کشش تھی کہ لوگ ان کی آواز سننے کے لئے جمع ہو جاتے۔ جب کشمیری عوام ڈوگرہ شاہی سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے تو بٹ صاحب اپنے انقلابی اور حریت پسند گیتوں کے ذریعے نوجوانوں اور بزرگوں کے اندر جوش و ولولہ کررہے تھے۔جس کے نتیجے میں انہیں چھ ماہ کے لیے سینٹرل جیل سرینگر میں قید بھی کاٹنی پڑی۔جب ڈوگرہ شاہی ختم ہوگئی تو اُن خدمات کےاعتراف میں اُس وقت کے ڈپٹی وزیر اعظم بخشی غلام محمد نےانہیں 1947ء میں ریڈیو جموں میں بطور فنکار مقرر کیا۔ بعد ازاں جب ریڈیو کشمیر سرینگر جولائی 1948ء میں قائم ہوا تو بٹ صاحب وہاں کے اولین فنکاروں میں شامل ہوئے۔
بٹ صاحب نے کسی باقاعدہ ادارے سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، مگر ان کی خداداد صلاحیتوں نے کشمیری لوک موسیقی میں نئی روح پھونکی۔ انہوں نے چھکری اور روف جیسے لوک گیتوں میں نئی جہتیں پیدا کیں۔ وہ پہلے فنکار تھے جنہوں نے کشمیری داستانوں کو موسیقی کے قالب میں ڈھالا، جیسے یوسف نامہ، اکہ نندون، ہیمال ناگرائی، زنما زور، وغیرہ۔ریڈیو کشمیر پر کشمیری غزل کو متعارف کرانے میں مرحوم علی محمد راہ اور بٹ صاحب کا کلیدی کردار رہا۔ انہوں نے انفرادی، دوگانے اور اجتماعی انداز میں گیت پیش کئے۔بٹ صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مشہور بھارتی گلوکارہ آشا بھوسلے کے ساتھ کشمیری گیت میں تمبکناری بجائی، جو اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ اننت ناگ کے شرباغ پارک میں عوامی ریڈیو اسپیکر پر ان کی آواز سننے کے لئے لوگ بے چین رہتے تھے۔تمبکناری میں بٹ صاحب کا مقام منفرد اور بے مثال تھا۔ ان کا بجائی ہوئی تمبکناری آج بھی ریڈیو کشمیر کی سائن آؤٹ دھن میں شامل ہے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ حکومت کی طرف سے مختلف ریاستوں میں نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے کشمیری ثقافت اور موسیقی کا پرچم بلند کیا۔بین الاقوامی سطح پر انہیں 1985ء میں جاپان جانے کا موقع ملا، جہاں انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ جاپانی عوام اور حکومت ان کی فنکاری سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی تمبکناری کو جاپان کے آرٹ میوزیم میں بطور تحفہ رکھا گیا، یہ فن اور ثقافت کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔بٹ صاحب نے ریڈیو کشمیر سرینگر میں تقریباً چالیس برس تک خدمات انجام دیں اور دسمبر 1985ء میں سبکدوش ہوئے۔ وہ 20 مئی 2006 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، مگر ان کی مدھر آواز اور فن کا جادو آج بھی زندہ ہے۔
بٹ صاحب صرف ایک عظیم فنکار ہی نہیں بلکہ ایک نیک سیرت انسان بھی تھے، ایک مہربان شوہر، ذمہ دار والد، مذہبی مزاج رکھنے والی شخصیت، جن کی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائے اذان آج بھی اہل دل کو یاد ہے۔فنکار، ادیب اور ہنرمند قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ قوم کی اخلاقی، سماجی اور ثقافتی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی خدمات کو یاد رکھے اور متعلقہ ادارے جیسے کہ کلچرل اکیڈمی، ریڈیو، ٹی وی اور میڈیا ان کی خدمات کو نئی نسلوں تک منتقل کریں تاکہ کشمیری ثقافت سے رشتہ قائم رہے۔