اسد مرزا
جمعہ کی صبح یعنی17 جنوری 2025ءکو اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے آخر کار اس بات کی تصدیق کردی کہ حماس کے ساتھ اسرائیلی حکومت کا امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ معاہدہ، جس کے امریکی حکام اتوار یعنی19 جنوری2025 ءکے نافذ ہونے کی توقع رکھتے ہیں، غزہ میں لڑائی میں وقفہ لائے گا اور یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کا باعث بنے گا۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے بدھ کے روز کہا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ اتوار سے نافذ العمل ہو جائے گا تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے ساتھ عمل درآمد کے اقدامات پر کام جاری ہے۔ بظاہر، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تھے کہ یہ معاہدہ 20 جنوری بروز پیر ان کی افتتاحی تقریب سے پہلے عمل میں آجائے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا اشارہ دیا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس جنگ کو وراثت کے طور میں حاصل کرنا نہیں چاہتے ہیں،اور ان کا چاہنا ہے کہ 20 جنوری کو ان کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے یہ معاہدہ عمل میں آجائے۔
اطلاعات کے مطابق، ٹرمپ اور سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن دونوں نے بدھ کو جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد مکمل کریڈٹ لیا جب کہ دونوں امریکی رہنماؤں نے اپنے ایلچیوں کے ذریعے جنگ بندی میں ثالثی کے لیے مل کر کام کیا۔دونوں کیمپوں کے درمیان تعاون ’’تقریباً بے مثال‘‘تھا، بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے معاہدہ طے پانے کے بعد کہا، جو تلخ حریفوں کے درمیان مفادات کے ایک نادر اشتراکی کوشش سے ممکن ہوپایا۔
اس امن معاہدے میں ایک عارضی جنگ بندی بھی شامل ہے جو بالآخر بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دے گی، حالانکہ اسرائیل کی جان بوجھ کر تباہی کی مہم میں گزشتہ دو تین دنوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جس کے نتیجے میں اسرائیلی حملوں میں 86 فلسطینی مارے گئے ہیں اور جس جنگی مہم میں بہت سے فلسطینی گھروں کو اب رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ لیکن مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی جلد از جلد اپنے وطن واپس جانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس اعلان کا خوشی اور آنسوؤں سے خیر مقدم کیا۔
امن معاہدہ :
اطلاعات کے مطابق امن معاہدہ تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا، اور اس میں محدود قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور غزہ میں امداد کا اضافہ شامل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی افواج مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی علاقے فلاڈیلفی کوریڈور میں اپنی موجودگی کو کم کر دیں گی اور پھر معاہدے کے نافذ ہونے کے 50ویں دن کے بعد مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔
دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تفصیلات ابھی زیادہ واضح نہیں ہیں، اگرچہ اصولی طور پر ان پر عارضی اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر دوسرے اور تیسرے مرحلے پر مذاکرات پہلے مرحلے کے ابتدائی چھ ہفتوں سے آگے بڑھ جائیں تب بھی جنگ بندی جاری رہے گی۔تاہم، اسرائیل نے اصرار کیا ہے کہ پہلا مرحلہ مکمل ہونے اور اس کے شہری قیدیوں کی واپسی کے بعد اس کے حملوں کو دوبارہ شروع کرنے کی کوئی تحریری ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
تاہم، ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے ایک مصری ذرائع کے مطابق، مذاکرات میں شامل تینوں ثالثوں مصر، قطر اور امریکہ نے حماس کو زبانی ضمانت دی ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور یہ تینوں ایک معاہدے کے لیے اسرائیل پر مزید دباؤ بنائے رکھیں گے ۔اگر یہ طے ہوتا ہے کہ دوسرے مرحلے کے لیے شرائط پوری ہو گئی ہیں، تو حماس اسرائیلی جیلوں میں قید مزید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں باقی تمام زندہ اسرائیلی اسیران کو رہا کر دے گی۔ اس کے علاوہ، موجودہ دستاویز کے مطابق، اسرائیل غزہ سے اپنے ’’مکمل انخلاء‘‘ کا آغاز بھی کرے گا۔
تیسرے مرحلے کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ اگر دوسرے مرحلے کی شرائط پوری ہو جائیں تو تیسرے مرحلے میں بقیہ اسیروں کی واپسی یقینی بنائی جائے گی۔مزید برآں، فی الحال اس بات پر کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام کون کرے گا۔ امریکہ نے ایسا کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے ایک اصلاحی وژن پر زور دیا ہے۔منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ جنگ کے بعد کی تعمیر نو اور گورننس فلسطینی اتھارٹی کو ’’بین الاقوامی شراکت داروں‘‘کو مدعو کرتی ہے تاکہ وہ اہم خدمات کو چلانے اور علاقے کی نگرانی کے لیے عبوری گورننگ اتھارٹی کے ساتھ مل کر کام کرسکیں۔انہوں نے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل میں ایک تقریر میں کہا، دیگر شراکت دار، خاص طور پر عرب ریاستیں، مختصر مدت میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے افواج فراہم کریں گی لیکن اسرائیل نے ابھی تک غزہ میں حکومت کی متبادل شکل کی کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔
معاہدے کی مخالفت :
نیتن یاہو کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان، جیسے Itamar Ben Gvirاور Bezalel Smotrichکی طرف سے اس معاہدے کی سخت مخالفت کی گئی۔ وہ ایک معاہدے پر اپنے مؤقف کے بارے میں پچھلے ہفتے کافی واضح رہے ہیں، اور کہا کہ یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے برا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسے ووٹ نہ دیں۔ وہ اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بھی تیار ہیں، اگر ان کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ چند خاندان جن کے ناطے رشتہ دار غزہ میں قید ہیں وہ معاہدے کو’’نہیں‘‘کہہ رہے ہیں۔ ٹکوا (امید) فورم کے بہت سے ارکان، بشمول مقبوضہ مغربی کنارے کے آباد کار، دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں۔ وہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی جزوی رہائی ناقابل قبول ہے۔ اس کے بجائے، ان کا اصرار ہے کہ مضبوط فوجی کارروائی کے ذریعے حماس کو شکست دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے بھی بہترین حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔
کیا معاہدہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا؟ :
اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ بندی پہلے مرحلے کے بعد بھی برقرار رہے گی یا نہیں۔کیونکہ معاہدہ میں اور بھی زیادہ مذاکرات شامل ہیں جن کا مقصد ہفتوں میں پیچیدہ مسائل کا حل نکالنا ہے۔ ان مذاکرات میں اسرائیل، حماس اور امریکہ، مصری اور قطری ثالثوں کو اس مشکل مسئلے سے نمٹنا ہو گا کہ غزہ پر کس طرح حکومت کی جائے گی، کیونکہ اسرائیل حماس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ساتھ ہی یرغمالیوں کی رہائی ایک مشکل مسئلہ ہے، کیونکہ تمام یرغمالی حماس کے پاس نہیں ہیں، اس لیے دوسرے فلسطینی گروپوں سے ان کو حاصل کرنا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔
مزید برآں، اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک مکمل انخلاء پر راضی نہیں ہوگا جب تک کہ حماس کی عسکری اور سیاسی صلاحیتیں مکمل طور پر ختم نہیں کردی جاتی ہیں اوریہ یقینی نہیں بنادیا جاتا کہ حماس دوبارہ مسلح نہ ہو سکے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ آخری یرغمالیوں کو اس وقت تک اسرائیل کے حوالے نہیں کرے گا جب تک اسرائیل غزہ میں ہر جگہ سے تمام فوجیوں کو نہیں ہٹالیتا۔
فاتح کون: بائیڈن یا ٹرمپ؟ :
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کو ایک بڑا ایشو بنایا تھا اور جنگ بندی کو یقینی بنانے میں بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی پر حملہ کیا تھا۔اسی لیے ان کی انتخابی کامیابی کے تین ہفتے سے بھی کم عرصے بعدہی وِٹکوف کو مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی کے طور پر 22 نومبر کو قطر روانہ کردیا گیا تھا، اس ہدایت کے ساتھ کہ انھیں امن معاہدے کو ہر حالتیقینی شکل دینی ہی ہے۔
اپنے سفیروں کو ہم آہنگی کی ہدایت کرتے ہوئے، بائیڈن اور ٹرمپ دونوں نے اپنی شدید ذاتی اور سیاسی دشمنی کو عارضی طور پر ایک طرف رکھ دیا تھا، یہ اپنے طور پر ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔تاہم، اگلے ہفتوں میں حقیقت میں بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ نیتن یاہو اپنے اتحادیوں کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے کیسے امن معاہدے کو یقینی بنائیں گے اور جنگ بندی برقرار رہتی ہے، تو یہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ثابت ہوگا۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ ایک عام سیاست داں نہیں ہیں وہ اصل میں ایک کاروباری ہیں اور اپنے ہر فیصلے کو وہ ایک کاروباری کی طرح ہی فائدے اور نقصان میں تولتے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر کے اسرائیل میں بہت زیادہ کاروباری مفادات ہیں اور اسی لیے اپنا نقصان کم کرنے کے لیے ٹرمپ کافی عجلت میں اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے کوشاں تھے تاکہ وہ صدر بننے کے بعد اپنے کاروباری فائدے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کی امریکی پالیسی کو نیا رخ دے سکیں۔ اور ساتھ ہی اس کے ذریعے اپنی کمپنیوں کے لیے مالی فائدے بھی حاصل کرتے رہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)