دنیا داری کے بھی کچھ تقاضے تو ہیں عشق میں ہی گزاروں یہ ممکن نہیں
دن تھکا دیتے ہیں شب سُلا دیتے ہیں روز تم کو نہاروں یہ ممکن نہیں
تیرے آنگن میں ہی آکے دی ہے صدا تیرے دروازے پر ہی تو دستک ہے دی
دل کے دامن کی اپنی ہیں مجبوریاں سب کے آگے پساروں یہ ممکن نہیں
تجھ پہ نظریں جمائے ہوں بیٹھا یہیں راستے پر جو آنکھیں بچھائے ہوئے
ضبط کے دائروں سے نکل آؤں اور پاگلوں سا پکاروں یہ ممکن نہیں
ہم فقط بھیج بوتے وفاؤں کے ہیں اور پھولوں کے گجرے بناتے رہے
دسترس میں کہاں آسماں ہے مری اُٹھ کے تارے اُتاروں یہ ممکن نہیں
تیرے قدموں پہ رکھا ہے یہ جسم و جاں جتنی سانسیں ہیں تجھ پر ہی اب وار دوں
تیری چوکھٹ سے اُٹھ کر کہاں جاؤں گا دل کہیں اور ہاروں یہ ممکن نہیں
واپسی کا بھی اب کوئی امکاں نہیں اور جاں سے گزرنا بھی تسلیم ہے
دشت سے لوٹ آؤں میں گھر کی طرف آشیانہ سنواروں یہ ممکن نہیں
وقت اپنا بھی دوں گا ترے ہاتھ میں خرچ کرلے اسے جس طرح چاہئے
جانتا ہوں کہ شیدؔاکا دل کیا کہے تیرا صدقہ اتاروں یہ ممکن نہیں
علی شیداؔؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد، اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
ان کو نہ پڑھ سکا تھا کبھی اضطراب میں
صفحات ہیں کئی مڑے دل کی کتاب میں
میں روکنے لگا تھا جنہیں پاس آنے سے
وہ خواب ملنے آتے ہیں مجھ سے حجاب میں
بے شک گلوں کے رنگ تو دھندلا چکے ہیں پر
باقی ہیں ان کی خوشبوئیں اب بھی کتاب میں
اب تو مجھے ستارے بھی آنے لگے نظر
پہلے تو صرف چاند ہی اتا تھا خواب میں
سامان ایک جیسے ہیں سب میرے سامنے
مشکل بہت ہے مجھ کو یہاں انتخاب میں
امبر پہ گر نہ دیکھا زمیں پر ستائے گا
اُترے گا چاند جھیل میں آئے گا خواب میں
چاندی کے ایک چھوٹے حسیں تاج محل کی
بنیاد رکھتے ہیں سبھی اپنے شباب میں
پانی تو اپنا پہلے ہی سب کھو چکا ہے یہ
آخر میں سایہ بھی نہ رہے گا سحاب میں
تکمیل اس کی مجھ سے کہ ممکن نہیں ہے اب
اِتنا خسارہ نکلا ہے دل کے حساب میں
جلتے ہوئے بدن کو بجھانے چلا تھا جو
وہ شخص گر گیا ہے کہیں گہرے آب میں
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
پاس بیٹھو کہ مجھے زار زار رونا ہے
تیری بانہوں میں مجھے بار بار رونا ہے
خواب پلکوں کے جزیروں سے ہٹا لیجئے گا
ڈوب جائیں گے مجھے دھار دھار رونا ہے
میرے جذبات پہ اَب میرا اختیار نہیں
کر کے دامن یہ میرا تار تار رونا ہے
مجھ کو اُمید ہے اس بار وہ آجائے گا
کوہ در کوہ مجھے غار غار رونا ہے
لے گیا پھول تمہاری یہ چبُھن بولوں گا
اے چمن دیکھ مجھے خار خار رونا ہے
سن فلکؔ غیر کی مہندی ہے رچی ہاتھوں میں
اپنی چاہت کو مجھے ہار ہار رونا ہے
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
سر جو میرے سراب باندھتے ہیں
کیوں وہ خواب و خُلاب باندھتے ہیں؟
کچھ تو قمری، کبھی چکور مجھے
گاہے افراسیاب باندھتے ہیں
میرے لہجے میں روشنی عیاں ہے
پھر بھی ظلمت کے باب باندھتے ہیں
ہم بہاروں کی بات کیا کریں اب
وہ خزاں کے نصاب باندھتے ہیں
سوزِ پنہاں ہے ورنہ لہجے میں کبھی
ہم بھی نغمے خطاب باندھتے ہیں
جل گئی ہے کتابِ صدق و صفا
کذب مجھ سے ،حساب باندھتے ہیں
اب تو یاور یہ ہے، زمانہ ترا
خواب کم ہی سراب باندھتے ہیں
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
چاندنی میں اُس کا جلوہ دیکھنا
زندگی کا خوب منظر دیکھنا
دل نے چاہا بات ہو جائے مگر
خامشی میں تھا سمندر دیکھنا
خواب آنکھوں میں اترتے ہی گئے
پھر نہ ممکن تھا برابر دیکھنا
یاد اُس کی جب بھی آتی ہے کہیں
پھول ہنستے ہیں مقدر دیکھنا
غم نہ کر، اے سبدر، وہی موسم رہا
پھر سے ممکن ہے وہ منظر دیکھنا
سبدر شبیر
اوٹو اہربل ،اننت ناگ، کشمیر
[email protected]
پیاس بجھی چلتے چلتے
یاس تھمی چلتے چلتے
دیوانوں میں تھوڑی سی
ساکھ بچی چلتے چلتے
میری بھی سّن لیتے وہ
کاش کبھی چلتے چلتے
دھیان نہیں کب کیسے
شام ڈھلی چلتے چلتے
لاحد کے اس عالم میں
بات بنی چلتے چلتے
بھونرا ،تتلی،شبنم ،جگنو
یار سبھی ہیں چلتے چلتے
شاہنواز احمد
شالی پورہ،کولگام،کشمیر
جاتے جاتے وہ اتنا کام کر گئے
زندگی میری غموں کے نام کر گئے
اسرارِ رموز جو چھپائے تھے اب تلک
اک پل میں وہ طشت از بام کر گئے
بے چین لہروں سے سیکھا جینے کا سلیقہ
خاموش کنارے دور سے سلام کر گئے
وقت کے بازار میں بھیڑ ہے لمحوں کی
کشمکشِ زندگی میں صبح و شام کر گئے
چمن کی تباہی پر بُلبل بھی نالاں ہے
باغباں ہی باغ کا یہ انتظام کر گئے
ہر رشتہ محفل ؔ ہم سے سنبھالا نہ گیا
تبھی تو حد میں رہ کے کلام کر گئے
محفلؔ مظفر
پلہالن پٹن بارہمولہ ، کشمیر
ای میل؛[email protected]