دشت میں آگ لگا دیں گے سمندر والے
ہم کہاں خاک بسر جائیں مقدر والے
پھر کوئی تازہ جنوں چاک گریباں ہوگا
کوچۂ جاں میں نکل آئیں گے پتھر والے
دستکیں کس کو بہاروں کی سنائی دیں گی
اب ہیں بستی میں سبھی برف زدہ گھر والے
بھول بیٹھے گے مرے گاؤں کی مٹی اک روز
دیکھنا شہر کے یہ سر و صنوبر والے
شعر کے فن پہ کریں بات تو کن سے کریں
سامنے آئیں اگر آئیں برابر والے
اوڑھ رکھا ہے محبت کا صحیفہ ہم نے
حسنِ دعویٰ ہے کہ خوش بخت پیمبر والے
کاشمر اپنا ہے اردو کا دبستاں شیداؔ
کُھل کے کہہ دو کہ ہم بھی ہیں سخنور والے
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
گلاب جوہے چنبیلی کنول کے چہرے پر
لکھا ہے نام تمہارا غزل کے چہرے پر
یوں لگ رہا تھا سر شام دیکھ کر سورج
لہو کسی کا وہ آیا ہو مل کے چہرے پر
میں آفتاب ہوں یہ اس کو تب ہوا معلوم
جب اس نے تھوکنا چاہا اُچھل کے چہرے پر
لکیریں آج کے ماتھے پہ ہار کی ہیں مگر
فتح کی بکھرے گی مسکان کل کے چہرے پر
کوئی بھی ڈھونڈ نہ پایا شہر میں قاتل کو
ملا سبھی سے وہ چہرہ بدل کے چہرے پر
رفیقؔ تجھ سے یہ خائف نہیں تو پھر کیا ہے
پسینہ آ گیا کیسے اجل کے چہرے پر
رفیق ؔعثمانی
سابق آفس سپر انٹنڈنٹBSNL
آکولہ مہاراشٹرا
پنکھڑی پہ اشک گر گیا گلاب جل گیا
سورج جو آکے ڈوب گیا آب جل گیا
میری نگاہ میں آگ تھی سو اس طرح ہوا
قدرت کے رخ کا ریشمی حجاب جل گیا
لِلاہ کرم کیجیے چہرہ چھپائیے
دیکھا جو آپ کو تو وہ مہتاب جل گیا
یادوں نے پھر سے کی ہے میری نیند ادھ مری
نمکین پانیوں سے میرا خواب جل گیا
شعلوں کی طرح تپ رہا ہے آج میرا ساز
ڈھولک کے زخم کُھل گئے رباب جل گیا
تیری چھبی کو ڈھونڈ رہی دیکھ مہیوال
سوہنی کے آنسوؤں سے یہ چناب جل گیا
تیزاب پھر سے بن گیا ہے مرد درندہ
عورت کا بیچ راہ میں شباب جل گیا
اب کس پہ بھروسہ کرے معصوم فلکؔ جی
دامن بھی پانیوں سے لو جناب جل گیا
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
بکنے کو ہم تیار خریدار ہے کوئی
ہم جیسا بھی ظلمت کا طرفدار ہے کوئی
رنگینیاں چمن کی ہمیں راس نہ آئیں
آندھی کاہم جیسا بھی طلبگار ہے کوئی
چاہت ہے گُلوں کی مگر بوتے رہے کانٹے
ناداں ہم جیسا بھی زمیندار ہے کوئی
کہتے ہیں سچ کو جھوٹ اور باطل کو کہیں حق
ہم سا بھی کہیں دہر میں سمجھدار ہے کوئی
بس اک خوشی کی خاطر سہے ہیں ہزار غم
کون ہم سا اس جہاں میں دلدار ہے کوئی
رنج والم کا خود ہی تو کرنا ہے مداوا
اپنے سوا نہیں اب غمخوار ہے کوئی
ہر درد کو اسی کے دوا جانا ہے ثاقبؔ
مجھ سا بھی کب کہاں وفادار ہے کوئی
ثاقبؔ فہیم شاداب
کریوہ شوپیان
موبائل نمبر؛8899134944
فقیر عشق کے مارے ہم بھٹکتے پھرتے ہیں ویرانوں میں
ویرانہ ہمارے دل سا نہیں ہے کوئی ویرانوں میں
ہم ہیں کہیں زمیں پہ خاک میں ملے ہوئے
نظر تمہاری ہے چاند ستاروں پر آسمانوں میں
دکھائی نہیں دیتے ہیں ہم وہاں سے
وسیع ہیں فاصلے کتنے ہمارے دو جہانوں میں
رشتہ ہے یہ کیسا عجب ہمارے درمیاں
ہم تمہارے اپنوں میں ہیں نہ بیگانوں میں
میرے دلبر میرے محبوب ہو تم صورتؔ
ڈھونڈ تے پھرتے ہیں ہم جس کو بُت خانوں میں
صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
چلے بھی آؤ ہے سانسوں میں اضطراب بہت
یہ دل تمہارے بنا رہنے سے ہے خراب بہت
میں راہ دیکھ رہا ہوں، تمہیں خبر ہی نہیں
یہ انتظار کی گھڑیاں ہیں بے حساب بہت
کہاں گئے وہ مراسم، وہ چاہتوں کے عہد؟
کہ خواب ٹوٹنے لگیں، ہے یہ انقلاب بہت
نہ چھین سایۂ الفت، نہ یوں جدا ہو تُو
یہ دل تڑپتا ہے تجھ کو، یہی ہے باب بہت
میں اپنی قسمت کے اوراق پلٹ بھی سکتا ہوں
مگر یہ ہجر کی دیوار ہے شتاب بہت
یہ تیرے ہجر کے لمحے، یہ کوچ کی ساعت
مرے وجود پہ جیسے ہو اک عذاب بہت
میں تیری راہ میں لمحے بچھا چکا ہوں سب
نہ چھوڑ جا مجھے یوں، دیکھ اضطراب بہت
عرفاتؔ ہجر کی وحشت میں ٹوٹ جائے گا
مگر یہ دل تجھے چاہے گا بے حساب بہت
وانی عرفات ؔ
کچھمولہ ترال پلوامہ کشمیر
[email protected]