جب سے ناسا نے بنایا ہے یہ رستہ چاند پر
تیری خاطر لے لیا میں نے بھی رقبہ چاند پر
ناسا والوں کے قدم پہلے پڑے اُس پر مگر
نام تیرا سب سے پہلے میں نے لکھا چاند پر
جب زمیں پر رہنے والوں سے مرا دل بھر گیا
میں نے خاموشی سے ڈھونڈا ایک گوشہ چاند پر
نفرتوں سے پاک ہوگا شہر میرا ایک دن
میں بساؤں گا نئے خوابوں کی دنیا چاند پر
اس زمیں پر پیار سے تو تم کبھی رہتے نہ تھے
نفرتوں کا ڈال مت دینا یہ ملبہ چاند پر
آج تک لکھے بہت اشعار اس کے حسن پر
اب بنائیں مل کے شعراء اپنا حلقہ چاند پر
ہاتھ سے دامن ترا چھوٹا تو پھر تُو دیکھنا
اپنے اشکوں کا بہا دوں گا میں دریا چاند پر
لوگ جس کو داغ کہتے ہیں اُنہیں معلوم کیا
میں نے اک عاشق کا دیکھا دل دھڑکتا چاند پر
مذہبِ انسانیت کے ہیں یہاں سارے مکیں
اب فسادوں کا نہیں ہے کوئی خطرہ چاند پر
اک اشارے سے ہوا تھا جس گھڑی شق القمر
تھا پڑھا زرّوں نے بھی اُس وقت کلمہ چاند پر
ہوگئے غمگیں ستارےسُن کےیہ اُڑتی خبر
کرلیا ہے ایک پٹواری نے قبضہ چاند پر
پرویز مایوس
ا?زاد بستی نٹی پورہ سرینگر،موبائل نمبر9419463487
نہیں وہ ترا نہ ہوگا کبھی وہ ترا نہ ہوگا
تو کہ یار کے تصور میں جو گم شدہ نہ ہوگا
بخدا نہ ہوگا ایسا کہیں خوشنما نہ ہوگا
مرے یار تیرے جیسا کوئی دوسرا نہ ہوگا
کسی اور سے محبت کوئی مسئلہ نہیں ہے
ترے بعد جو ہوا ہے کبھی پُر خلا نہ ہوگا
جسے چن لیا ہے میں نے جسے تج دیا ہے میں نے
کبھی مجھ سے دونوں پر ہی کوئی تبصرہ نہ ہوگا
وہ کہ یار کی جو قربت کے سرور میں بسا ہو
کہے خلد ہے زمیں پر تو غلط ذرا نہ ہوگا
ترے جسم میں جو لذت مرے رب نے رکھ دی جاناں
کسی شے میں اس زمانے کی یہ ذائقہ نہ ہوگا
مری ماں نے مجھ پہ یارو جو ہے مامتا لُٹائی
مجھے غم ہے مجھ سے اس کا کبھی حق ادا نہ ہوگا
جو اُگا ہے میرے کمرے میں حسین تر ہے یارو
کہیں اتنا خوبصورت کبھی گُل کِھلا نہ ہوگا
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی
موبائل نمبر؛7007368108
داغ سینے کے دل میں دبا کر چلے
رنج و غم میں بھی ہم مسکرا کر چلے
ایک وعدہ کیا تھا کسی سے کبھی
داغ چہرے پہ اس کا چھپا کر چلے
میں چھپاتا رہا سب سے اپنا بدن
داغ میرے مگر وہ دکھا کر چلے
جانے کیسے کیا اس نے یہ فیصلہ
باغ میں داغ اپنا سجا کر چلے
اک تماشا بنایا جہاں میں مجھے
داغ اوروں کے مجھ پر سجا کر چلے
داغ داروں نے مجھ سے وفا کی مگر
حسن والے مجھے سب خفا کر چلے
شوقؔ سپنا مرا آج سچ ہو گیا
داغ اک بے وفا کے مٹا کر چلے
شوق ارشد
مڑواہ کشتواڑ ، جموں
موبائل نمبر؛9103023539
گزرے دِنوں میں جانِ جاں تم کون تھے میں کون تھا
کچھ یاد کر وہ داستاں تم کون تھے میں کون تھا
جو مرتے تھے اک دوجے پر بے چین رہتے رات بھر
آخر ہوئے جو رائیگاں تم کون تھے میں کون تھا
جن کے دِلوں کی دھڑکنیں اب جم گئیں ہیں سردی سے
جو ساتھ تھے پچھلی خِزاں تم کون تھے میں کون تھا
حالات کے گرداب میں بکھرا دلوں کا کارواں
اُجڑا ہمارا ہر گُماں تم کون تھے میں کون تھا
وہ عشق کا پہلا سفر وہ وصل کے دن یاد ہیں ؟
جو تھے کبھی یک جا یہاں، تم کون تھے میں کون تھا
اب سوچتا ہوں رات دن، کیا تھی حقیقت خواب کی
تھا کون کس کا مہرباں تم کون تھے میں کون تھا
جو عشق کے صحرا میں بھی، سپنے گلوں کے دیکھتے
تھے درد سے جو نیم جاں تم کون تھے میں کون تھا
مجھ کوسمجھ آئی نہیں اب تک شرارت لمحوں کی
تھا کیا ہمارے درمیاں تم کون تھے میں کون تھا
میر شہریارؔ
اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105
دل مرا تو اداس تھا ہی نہیں
شخص وہ مجھ کو راس تھا ہی نہیں
کیسے پہچانتے وہ میرا وجود
میں کبھی بے لباس تھا ہی نہیں
ڈھونڈتا ہے جواب ،جس خط کا
اُس کا میں اقتباس تھا ہی نہیں
تھا گلہ بھی کوئی تو رسمی تھا
دل مرا نا سپاس تھا ہی نہیں
میں جسے ڈھونڈتا رہا ہوں سدا
وہ مرے آس پاس تھا ہی نہیں
کیسے شکوہ کروں کہ بھول گیا
وہ مرا روشناس تھا ہی نہیں
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
دل کی ویرانی میں اک شعلہ سا بھڑکایا تو نے
خاک ہونے کا مگر حوصلہ بخشا تو نے
ایک پل میں ہی مقدر کو بدلتے دیکھا
پیار کی راہ میں کیا کیا یہ تماشا تو نے
میں تو دیوانہ تھا، آشفتہ تھا، رسوا تھا مگر
اپنی زنجیر میں مجھےہی آخرجکڑا تو نے
اب یہ امید کہ صحرا میں بھی بادل برسیں
کیا عجب خواب تھا، کیسا کیایہ دھوکا تو نے
ہم تو سمجھے تھے کہ افسانہ بنے گی محبت میری
پھر اس انجام کو ناتمام کیوں چھوڑا تو نے
عشق ایک آگ ہے، جلنا ہے مقدر میرا
میرے جذبات کو پھر کیوں دی یہ ہوا تو نے
عرفاتؔ خاک کر دے گا ہمیں وقت، مٹا دے گا مگر
نام زندہ رہے گا دلایا یہ یقیں تھا تو نے
محمد عرفاتؔ وانی
کچھمولہ ترال، ضلع پلوامہ
[email protected]
قطعات
آنکھیں تھیں میری منظر نہیں تھے
کڑی دھوپ تھی شجر نہیں تھے
میں چلتا رہا پائوں تلے نہیں دیکھا
راستوں میں نشتر کدھر نہیں تھے
اپنے لئے کوئی بھی بے قرار نہیں دیکھا
کسی بھی موسم میں بہار نہیں دیکھا
خونِ جگر دیا تھا بدلے میں آنسوئوں کے
مالی نے چھل کیا چمن زار نہیں دیکھا
پی کے میں مر گیا دوستوں نے کہدیا کافر مجھے
اس طرح رسوا کیا اپنوں نے وقتِ آخر مجھے
ساتھ جن کا دے رہا تھا ہر حال میں تو اے سعیدؔ
بعد مرنے کے میرے لکھتے ہیں وہ شاطر مجھے
راہ میں ہم پلکیں بچھائے دوستوں کیلئے
کون جیتا میری طرح جھوٹے سپنوں کیلئے
مل گئے درد و غم دوستوں کے روپ میں
ہاتھ خود میں نے ملایا ایسے رشتوں کیلئے
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9906726380