حسن کو بے نقاب دیکھ لیا
خوبصورت عذاب دیکھ لیا
روشنی بھر گئی ہے آنکھوں میں
جب سے وہ ماہتاب دیکھ لیا
جب تمہیں دیکھنے کو جی چاہا
ہم نے کِھلتا گلاب دیکھ لیا
جو پڑے عشق کے جھمیلوں میں
حشر اُن کا جناب دیکھ لیا
اُنکی نظروں سے جب ملیں نظریں
اپنا خانہ خراب دیکھ لیا
یہ غمِ زیست کو مٹا نہ سکی
ہم نے پی کر شراب دیکھ لیا
حسن ان کا ہے بے مثال رفیقؔ
عشق بھی لاجواب دیکھ لیا
رفیق ؔعثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈٹ
BSNLآکولہ مہاراشٹرا
مجھ سے وہ دور ہی کھڑی ہے ابھی
اپنی تڑپن میں کچھ کمی ہے ابھی
دے گئی تھی جو تیری پہلی جھلک
مجھ میں باقی وہ بے خودی ہے ابھی
عمر تو ڈھل گئی مگر اس میں
نوجوانی سی دلکشی ہے ابھی
تجھ میں اور مجھ میں جو محبت ہے
شکرِ رب ہے ڈھکی چھپی ہے ابھی
اس کو دل دے کے لوٹ آیا میں
اور وہ بیٹھی سوچتی ہے ابھی
وہ جہاں میں نہیں رہا ہے مگر
اس کو ہی آنکھ ڈھونڈتی ہے ابھی
آؤں گا ڈوبنے تو دو سورج
ہر طرف پھیلی روشنی ہے ابھی
میرا ہمدم ابھی سلامت ہے
مجھ کو کوئی نہیں کمی ہے ابھی
میرے قاتل نے کیسے قتل کیا
میری تو سانس چل رہی ہے ابھی
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی
محفل میں تیری درد کا مارا نہیں گیا
یہ اور بات ہے کہ پکارا نہیں گیا
مٹنے کو دل سے مٹ گئے تمام درد پر
سر سے نشانِ ظربِ سنگ ِ خارا نہیں گیا
کہنے کو زندگی ہے بہت مختصر مگر
ہم سے ہی وقت ِ ہجر گزارا نہیں گیا
میں ہی شکستہ دل بھی اذیت گزار بھی
مجھ سے نباہ عشق کا کارا نہیں گیا
اک وہ ہیں کہ جیتے ہیں میرا سر اُتار کر
اک میںہوں کہ دستاراُتارا نہیں گیا
تعجب نہیں کہ آج تیرے دیدہ خشک ہیں
میں جو گیا کوئی تیرا پیارا نہیں گیا
جس کی عنایتوں سے ہوئے خاک نشیں ہم
اُس کی طرف غزل میںاشارا نہیں گیا ؟
کیا کیا دفن ہے سینۂ فگار میںمنیبؔ
یہ کم نہیں کہ ضبط کا یارا نہیں گیا
مرزاار شاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481
اے طفل دبستان شوخئی دل اب تو چھوڑ دے
نیا سفر نئی راہوں کی جانب رخ اپنا تو موڑ دے
دریدہ دہنی سے تمہیں وجود کو رہیدہ کرنا ہوگا
اب تو اپنے نظر و فکر کے قفل جمود کو توڑ دے
طلب ریزگاری میں ہر گز تو جان فشانی نہ کرنا
بکھرے ہی اگر سہی در یتیم کو تو ذرا جوڑ دے
دوڑ کر رگوں میں جو لہو بھڑکا دے معصیت کو
ا یسے خونِ حریف کے ہر قطرے کو تو نچوڑ دے
کیف و مستی کو رفیق سفر اپنا بنا تو اے اویسؔ
آئیں جتنے بھی نفس کے سر ان کو تو مروڑ دے
اویس ابن بشیر قادری
آلوچہ باغ، سرینگر، کشمیر
شہر میں ہیں تیرے کوئی ملاقات ہو
کچھ نہ کچھ ہم سے تھوڑی بہت بات ہو
چند ہی لمحے میسر ترے ساتھ ہوں
جن کی صبحیں کہیں ہوں نہ ہی رات ہو
ہجر میں اب گزرتی رہے عمرسب
عشق میں ہی فنا اپنی یہ ذات ہو
خواب تھا یہ مرا ساتھ تیرا رہے
خواب ہی رہ گیا تم مرے ساتھ ہو
مجھہ پہ ڈھائے ہیں تونے ستم ہی ستم
اب کرم اور عنایت کی بھی بات ہو
سامنے وہ مرے آنا چاہتا نہیں
خواب میں ہی نہ کیوں پھر ملاقات ہو
کیسر خان قیس ؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
محبت کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے ہیں
یہ دل اور جذبے تو کھوئے ہوئے ہیں
تقدیر کے کھیل میں دل ہار بیٹھا
یہ خوابوں کے قصے بھی سوئے ہوئے ہیں
جو آنکھوں کے منظر میں تھے، وہ نہیں ہیں
کہاں پر نہ جانے وہ کھوئے ہوئے ہیں
محبت کو چاہا، مگر کچھ نہ پایا
یہ باتیں یہ وعدے، تو روئے ہوئے ہیں
جو دل سے ہیں نکلے، وہ الفاظ جھوٹے
یہ شعلے حقیقت میں بُجھتے ہوئے ہیں
ہے اب دل نے سیکھا کہ سب کچھ فنا
یہ سپنے، یہ ارماں سبھی ڈھلتے ہوئے ہیں
ہے پوشیدہ ہر بات خدا کی رضا میں
یہ راز محبت میں جیتے ہوئے ہیں
وانی عرفات ؔ
کچھمولہ ترال پلوامہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛9622881110
جائینگے کہاں اب ہم اس سے بھاگ کر
یہی تو ہے ہمارے اعمال کا ثمر
منظر ہمارے دل کے اندر کا ہی تو ہے
عکس جسکا ہر دم دکھے ہے چہرے پر
اک دن تو ہم بھی اسکو چھوڑ جائینگے
یہ جہاں ہوا ہے کس کا داعمی گھر
جو تم نے مجھ سے کبھی دم بھر کے کیا تھا
یہ پیار ہے وہ جسکا ابھی تک رہا اثر
یہ تاج و تخت و ایواں تم کو ہی ہو مبارک
اپنا تو خوش دلی سے کونے میں ہے بسر
ہاتھ آگئیں سدا ہی مایوسیاں صورتؔ
قسمت ہی اپنی تھی کچھ خراب سربہ سر
صورت سنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549
اُلجھا ہوا ہوں میں تو بس چارہ گروں کے بیچ
کیسے بچائوں شیشۂ دل پتھرئوں کے بیچ
کیا کیا نہ حادثے ہوئے مری راہ گزر میں
گزری ہے ساری عمر خار و نشتروں کے بیچ
آباد یہ دنیائے دل دوہی گھڑی رہتی
ذکر میرا آج ہوتا داوروں کے بیج
آئے گا بن کر لشکرِ مظلوم دیکھنا
ظالم بچے گا کب تلک بازی گروں کے بیچ
پہچان مٹ گئی ہے تری ٹوٹ کے سعیدؔ
بکھرا ہوا ہے شیشۂ دل پتھروں کے بیچ
سید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9906726380