غمِ عشق کی اب دوائی نہ کرنا
مجھے پھر عطا تم رہائی نہ کرنا
یہاں لوگ الزام دیتے ہیں کیا کیا
مجھے چھوڑ کے جگ ہنسائی نہ کرنا
جبیں کو نہ بھائے کوئی اور دَر اَب
فقیروں سے تو کج ادائی نہ کرنا
نمائش لگا کر یہاں پیرہن کی
وہ کہنے لگے رو نمائی نہ کرنا
ترے نام پر میں سدا واری جاؤں
کبھی در سے اپنے جدائی نہ کرنا
بلا سے یہ سانسوں کی ڈوری ہی ٹوٹے
تو سجدے سے ناآشنائی نہ کرنا
یہ کاغذ کی کشتی وفا کب کریگی
تو پروازؔ جی جاں فدائی نہ کرنا
جگدیش ٹھاکر پرواز
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ ، جموں
موبائل نمبر؛9596644568
مجنوں فرہاد سارے مارے گئے
عشق کے وہ زمانے پیارے گئے
دل بڑے پیار سے سنوارے گئے
پھر بڑی بے دلی سے مارے گئے
بے سبب جس میں ہم ہی مارے گئے
جرم آخر وہ سر ہمارے گئے
ایک دیوار تھی گماں کی جو
گر گئی تو یقین مارے گئے
اِک عجب شور تھا ہواؤں میں
لفظ بس بے صدا پکارے گئے
خواب آنکھوں کے خالی کاسے تھے
زندگی کے یہ دن گزارے گئے
عشق محرومِ اعتبار رہا
اور دعوے یقین ہارے گئے
وقت اپنا لہو بہاتا رہا
ہم فقط ایک قصہ وارے گئے
کیا حقیقت تھی کون جانتا ہے
ہم تو بس خواب سے گزارے گئے
تھی تمنا بہاروں کی ہم کو
ہم خزاؤں کے بیچ مارے گئے
ہمیں اس کے اشارے جانا تھا
ہم کسی اور کے اشارے گئے
سوچ اپنی تھی، خواب اپنے تھے
پھر یہ کس کے گماں کے مارے گئے
یہ جو خاکِ وطن تھی ہم سب کی
اسی مٹی پہ خوں کے دھارے گئے
اس چمن میں چلی پھر ایسی ہوا
پھول کانٹوں کے ساتھ وارے گئے
ایک سر کو بچانے کے لیے پھر
پوچھو مت کتنے سر اتارے گئے
تم گئے دل سے رفتہ رفتہ پھر
خواب، خواہش، ملال، سارے گئے
دل کی بستی میں رات ڈھلتی رہی
اور ہم خواب میں سنوارے گئے
دھوکے پر جس کے سب یہاں آئے
ہم اسی دھوکے پر پکارے گئے
ایک خوابِ گریز تھا دنیا
ہم اسی خواب میں سدھارے گئے
زندگی ہم پہ ہنس رہی ہوگی
ہم بھی کس خواب کے سہارے گئے
آخرش ایک دن سمجھ آیا
ہم بھی قصے کے ایک چارے گئے
میر شہریار
اننت ناگ،کشمیر،موبائل نمبر؛7780895105
زندگی سے نراس تھا ہی نہیں
میں کبھی بدحواس تھا ہی نہیں
میری تصویر کھینچ لی یوں ہی
میں مکمل اُداس تھا ہی نہیں
تم یہ کس کا جواب لکھ بیٹھے
پرچے میں اِقتباس تھا ہی نہیں
خود شناسی سکھا رہا ہے مجھے
جو کبھی خود شناس تھا ہی نہیں
کچھ نہیں تھا پکانے کو ورنہ
آج میرا اُپاس تھا ہی نہیں
ہم ترقی سمجھتے تھے جس کو
وہ تو کوئی وکاس تھا ہی نہیں
جتنا تصویر میں دکھایا ہے
میں تو اتنا اُداس تھا ہی نہیں
اب مِری زندگی ہے وہ اِندرؔ
جو مِرا رو شناس تھا ہی نہیں
اِندرؔ سرازی
گاؤں پرشولہ، ضلع ڈوڈہ، جموں
موبائل نمبر؛7006658731
آج دیکھا ہے تجھے دیر کے بعد
ہاں مگر اس سَرِ رہ غیر کے بعد
پی لیا ہے جو مئے رامش و رنگ
مےکشوں میں جنوں ہے دیر کے بعد
چڑھ لے منصور اسی دار پہ پھر
پھر اناالحق بجالا دیر کے بعد
یہ مرے دور کے درویش نہیں
پھر گئے ہوں جو سرَاریر کے بعد
چھوڑ دی بزم سخن پروری بھی
میں نے تحریم مزامیر کے بعد
سب عیاں راچہ بیاں جلوۂ طور
دیکھ لی نالَۂ شب گیر کے بعد
ہے مجھے پُخْتَگیٔ عِشْق کہاں
پیر کو چھوڑ گیا طیر کے بعد
آ گیا دَورِ فَرُخ چھین لے سب
بے خودِ عشق بڑی دیر کے بعد
کیا کروں گا ادا کَفّارَۂ ذُنُوب
اک مسافر ہے مسافیر کے بعد
ثِقل تھی زندگی اور ثَقل ہوئی
بس زبر لگ گیا جب زیر کے بعد
یاور حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ،کشمیر
کچھ اور نہیں ہے دنیا بس باغِ سراب ہے
خوشنما نظر آنے والا اک حسین حباب ہے
دیکھوں کیسے اس جہاں کی حقیقت کو
آنکھوں پہ پڑا میرے جو دبیز حجاب ہے
سمجھوں کیسے کج روی دنیا والوں کی
چڑھا رکھے زبان پر شرافت کے نقاب ہے
نالاں اور گریہ کناں ہوا شکستہ حالی پر
صرفِ نظر کیا گیا کہہ کر خانہ خراب ہے
جو ہوا میں لب فریاد زمانے کے تجاہل پر
قصور میرا ہی تھا سب کا یہی جواب ہے
اتنا نہیں آسان پانا کچھ بھی اے اویسؔ
گرا کانٹوں میں بھی تو دلکش گلاب ہے
ؕاویس ابن بشیر قادری
آلوچہ باغ،سرینگر،کشمیر
قطرہ سمندر سے نکال کر آنکھ کو نم کرنا ہے
مزہ موت کا دے کر کمر عدو کا خم کرنا ہے
تمیز ہمیں کرنا ہے حق و باطل میں اور
اور دشمن کی جیت پہ کبھی نہ غم کرنا ہے
ابلیس پتھر سے فوت نہیں ہوتا اے آدم
مارنا اسے گویا میں کو ہم کرنا ہے
ریت سے گوہر ڈھونڈنا آسان کہاں ہے
یہ کام مثل شرق کو غرب میں ضم کرنا ہے
موت تمہارے ارادے نہ توڑ دے کہیں
کسی طرح حالات کو یاں زیر و بم کرنا ہے
میر یہ دوستوں کو پیغام دے رہا ہے
کہ دشمنوں کو خاموش اک دم کرنا ہے
میر حسین
[email protected]
دل کے جذبات میرے گڈ مڈ
ہیں اَب کے حالات میرے گڈمڈ
سوچتا ہوں کبھی یہ کبھی وہ
سو ہیں خیالات میرے گڈمڈ
ہوتا ہے جو بھی میرے دل میں
کردیتا ہے کلمات میرے گڈمڈ
اُن کو دیکھتا ہوں میں جب بھی
ہوتے ہیں درجات میرے گڈمڈ
رکھتا ہر حال میں ہوں یکسوئی صورتؔ
کیوں ہوں عادات میرے گڈمڈ
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549