زندہ دل لوگ عجب سیلِ رواں ہوتے ہیں
آخری سانس تلک فیض رساں ہوتے ہیں
زندگی نت نئے اطوار میں ملتی ہے انہیں
عمر ڈھل جائے مگر بوڑھے کہاں ہوتے ہیں
جو بھڑکتے ہیں بکھر جاتے ہیں ذرّوں کی طرح
پُرسکوں رہتے ہیں جو کوہِ گراں ہوتے ہیں
غم کی چنگاری سُلگتی ہے دھواں اُٹھتا ہے
یونہی آنکھوں سے کہاں اشک رواں ہوتے ہیں
کچھ تو چہرے کی لکیروں میں بھی پڑھنا ہوگا
درد لفظوں میں کہاں سارے بیاں ہوتے ہیں
کم وہاں پاؤگے ایماں کی حرارت والے
ایسی بستی کہ جہاں اونچے مکاں ہوتے ہیں
جن کو سنتے ہی بصیرت کو جِلا ملتی تھی
اب گھروں میں وہ کہاں قصے بیاں ہوتے ہیں
بات کرنی ہو کسی سے تو سلیقے سے کرو
اپنی دنیا میں سبھی شاہ ِجہاں ہوتے ہیں
جن گھروں میں نہیں جلتے ہیں محبت کے چراغ
گھر کہاں ہوتے ہیں وہ خالی مکاں ہوتے ہیں
عمر لگ جاتی ہے اک گھر کو بنانے میں یہاں
گھر بکھر جاتے ہیں جب بچے جواں ہوتے ہیں
پیر صاحب سے گلے ملنا سنبھل کر بسملؔ
جامہء پیر میں اب پیر مغاں ہوتے ہیں
خورشیدبسملؔ
تھنہ منڈی راجوری ، جموں
موبائل نمبر؛9622045323
آج پھر جشن منایا جائے
سوئی یادوں کو جگایا جائے
مجھ کو دعویٰ تھا محبت کا بہت
کیسے یہ عہد نبھا جائے
دل لگی مہنگی پڑ ی ہے مجھ کو
دل کی بستی کو بچایا جائے
شادمانی کا فسوں بھی دیکھا
فخر فخری کو نبھایا جائے
رنگ و نور اپنی نطر کا دے کر
اس دریچے کو سجایا جائے
کامران کرکے نئے وقتوں کو
قرض صدیوں کا چکایا جائے
دل کو دیتا ہو اُمیدیں فردا
جیسے روٹھے کو منایا جائے
دل کا اب حال نہ پوچھو یارو
دل کی حالت کو چھپایا جائے
ہے نسیمؔ آج بھی وہ رونق محفل
شمع کو کیسے بجایا جائے
حمید نسیم رفیع آبادی
رفیع آباد بارہمولہ
موبائل نمبر؛9419093692
آج پھر جشن منایا جائے
سوئی یادوں کو جگایا جائے
مجھ کو دعویٰ تھا محبت کا بہت
کیسے یہ عہد نبھا جائے
دل لگی مہنگی پڑ ی ہے مجھ کو
دل کی بستی کو بچایا جائے
شادمانی کا فسوں بھی دیکھا
فخر فخری کو نبھایا جائے
رنگ و نور اپنی نطر کا دے کر
اس دریچے کو سجایا جائے
کامران کرکے نئے وقتوں کو
قرض صدیوں کا چکایا جائے
دل کو دیتا ہو اُمیدیں فردا
جیسے روٹھے کو منایا جائے
دل کا اب حال نہ پوچھو یارو
دل کی حالت کو چھپایا جائے
ہے نسیمؔ آج بھی وہ رونق محفل
شمع کو کیسے بجایا جائے
حمید نسیم رفیع آبادی
رفیع آباد بارہمولہ
موبائل نمبر؛9419093692
خیالوں میں بسا عکسِ پری ہے
معطر ہر گھڑی دل کی کلی ہے
تجھے ہر بار سمجھایا تھا میں نے
اسی سے آج لب پر خامشی ہے
ہمیشہ ہار کر میں سوچتا ہوں
یہ کیسی دوستی ہے دلبری ہے
رہائی کی امیدیں کیوں رکھوں میں
یہاں سے آگے کوئی زندگی ہے ؟
نہیں تیری طرح میری رسائی
تو عابد ہے تو زاہد ، متقی ہے
مسلسل بارشِ لطف و کرم میں
مری تُک بندی میری شاعری ہے
میں پیتا ہوں مگر لب تر نہیں ہیں
یہ آخر کس طرح کی تشنگی ہے
سعیدؔ بے نوا کی لاج رکھ لے
گزارش آج اس کی آخری ہے
سعید قادری
صاحبگنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛ 9262934249
یہاں اپنا کوئی مونس کوئی ہمدم کوئی غم خوار کہاں
تعجب ہے میرا دُکھ بانٹنے کو کب کوئی تیار کہاں
غمِ جاناں غمِ دوراں، غمِ فرقت، غمِ دیگر دردِ سر
یہی غم ہے کہ غم سے غم زدہ کو ممکن فرار کہاں
اُٹھائے پھر رہا ہوں کب سے کشتۂ ارمان کا ندھوں پر
زمیں تنگ ہے میرے حق میں کہاں تربت مزار کہاں
مقدر میں جسے لکھی تھی صحرا نور دی، میں ہوں
ہماری دسترس میں سایۂ دیوار کہاں اشجار کہاں
معانی بے کسی کا، بے بسی کا، بے گھری کا، سخت جانی کا
اُسے کیا پوچھتے ہو جسے خبر نہیں ہے سر کہاں دستار کہاں
دریدہ دل، شوریدہ سر، بریدہ پر ہنوز رنجیدہ ہیں
تمہاری بزم میں بھی آخرش ہوا حاصل قرار کہاں
اگر تجھ تک میرے اشعار پہنچیں تو سمجھ جانا
مرزا ارشاد منیبؔ کہاں ہے اور تیرا معیار کہاں
مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام،کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481
بھول پائے نہ ہم محبت وہ
کاش مل جاتی ہم کو چاہت وہ
کھو گئی حسن کی بھی رعنائی
ہے کہاں عشق میں بھی شدت وہ
میں تھی آئینہ اور وہ پتھر
طاق پر جیسے کوئی مورت وہ
جس کو دنیا کہے ہے رسوائی
پیار کی لازوال شہرت وہ
جھلملاتی ہے روشنی گھر میں
جگمگاتی ہے جب بھی صورت وہ
ہر ادا پر ہیں ہم فدا نازاؔں
ہائے بدلے نہ اپنی عادت وہ
جبیں نازاںؔ
لکشمی نگر ، نئی دہلی
حزن و ملال ،کلفتِ جان شانہ بہ شانہ ہمارے چلے
غم ہی سہی کچھ تو ہے جس کے ہم سہارے چلے
دشت بہ دشت،قریہ بہ قریہ اور تپتےصحراؤں سے
نہ جانے کہاں کہاں کدھر کدھر دید کے مارے چلے
تڑپ چشموں میں کس قدر ہے دیدارِ دلدار کے لئے
رو رو کے آنکھوں سے اب تو لہو کے دھارے چلے
کیا ہی جیا کرتے تھے ہم دلداروں کے سنگ اے دل
نہ جانے کن کا دل بہلانے سکون کے وہ تارے چلے
راست بازی کا سبق ہمیشہ مجھ کو جو دیتے تھے
حق گو کے نور ستون اب تو وہ رہنما ستارے چلے
حرمان نصیبی بہت خوب چھائی ہے تم پر اویسؔ
رفتہ رفتہ یہاں تمہارے اپنے تو سارے پیارے چلے
اویسؔ ابن بشیر قادری
اقبال کالونی،شالہ پورہ،آلوچہ باغ،سرینگر،کشمیر