مَرجعِ خاص و عام ہونا تھا
باعثِ احترام ہونا تھا
پردہ داری کو ہم نبھاتے رہے
یا تو پھر ہم کلام ہونا تھا
چُنی کس نے خمیدہ پہلی خِشت
کوئی لمحہ دھڑام ہونا تھا
بکھیڑے میں یہاں رُکتے رہے
ہمیں تو تیز گام ہونا تھا
بات اِفہام سے سُلجھ جاتی
معرکۂ قتلِ عام ہونا تھا
سر پھروں کی تلاش میں لیکن
شہر کا انہدام ہونا تھا
شاق ہے افسروں کی سُلطانی
صاف شُستہ نِظام ہونا تھا
کورا کاغذ نہ میرؔ رہ جائے
آخرش کوئی کام ہونا تھا
ڈاکٹر میرؔ حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
لاکھ غم ہو مگر چھپانا ہے
اپنی فطرت ہی مسکرانا ہے
کوئی بچھڑے،کسی کی قربت ہو
زندگی کا یہی فسانہ ہے
وقت کا خود کوئی پَڑاؤ نہیں
یہ مسافر تو بے ٹھکانہ ہے
تیر لفظوں کے خوب چلتے ہیں
صرف انداز والہانہ ہے
جس جگہ آ کے سب ٹھہرتے ہیں
دل مِرا وہ غریب خانہ ہے
جس پَری پر نِگاہ تھی سب کی
اس کے دل میں مِرا ٹھکانہ ہے
سخت گفتار ، سنگ دل ہے جو
اس کا تیور بھی ظالمانہ ہے
رزق پاتا ہے دور سے شاہدؔ
خوب قسمت میں آب و دانہ ہے
صرف آنکھیں نہیں علی شاہدؔ
تیرا تیور بھی عاشقانہ ہے
علی شاہدؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
ضلع کوچ بہار ، مغربی بنگال
کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں
شاخِ جاں پر کِھلے ہیں خون کے پھول
غم نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں
دائرے میں ہے دائرہ کوئی
کرو گے کب تلک سفر مجھ میں
ہر طرف میں ہوں اور کچھ بھی نہیں
ہے مگر بے کراں سا ڈر مجھ میں
کیا حقیقت ہے کیا ہے وہمِ وجود
کچھ کہو کیا ہے معتبر مجھ میں
وہ بھی ابلیس اور آدم بھی
رہتے ہیں کتنے جانور مجھ میں
میں کہ اک سانحہ ہوں لمحوں کا
ہوتا کیا کیا ہے لمحہ بھر مجھ میں
خوابوں کے کتنے شہر جلتے ہیں
کتنے مرقد ہیں بے خبر مجھ میں
میری انگلی پکڑ کے میرے ساتھ
کون پھرتا ہے در بہ در مجھ میں
اب وہ آرامِ جاں وہ نیند کہاں
کھلتے ہیں زخم رات بھر مجھ میں
بس کنارے کنارے چلتی ہو
کبھی تو میری جاں اُتر مجھ میں
عشق خنجر چلا ہے ایسے کہ بس
خوں سے ہے ذرہ ذرہ تر مجھ میں
موسمِ گل کے باوجود رہے
باغ کتنے ہی بے ثمر مجھ میں
مجھ میں ہی پھر ہوا یہ قصہ تمام
مر گیا میرا ہمسفر مجھ میں
کتنے ہی جسم پوجنے لگے گے
سایہ بن کے کبھی ٹھہر مجھ میں
اب تو آئے کوئی مرے اندر
اب تو کھلنے لگے ہیں در مجھ میں
اب تو مجھ میں میں بھی نہیں رہتا
اب تو کر کوئی شب بسر مجھ میں
میر شہریارؔؔ
اننت ناگ،موبائل نمبر؛7780895105
چاہا تھا آسمان کا تارہ ملا نہیں
مجھ کو تری وفا کا سہارا ملا نہیں
ارماں رہےبھٹکتے ہی فرقت میں تیری بس
اک پل کودل میں تیرے گزارا ملا نہیں
موجوں نے لے لیامجھے اپنے فریب میں
مجھکو تری نظر کا اشارہ ملا نہیں
اب تک خزاں بدوش ہے موسم یہ پیارکا
بچھڑا وہ اس طرح کہ دوبارہ ملا نہیں
تاعمر روتے روتے ہوئی زندگی کی شام
لاچار مجھ غریب کو چارہ ملا نہیں
ہراک بھنور کا حال سمندر کو ہے پتا
لیکن اُسے کہیں بھی شکارا ملا نہیں
پتوار کو بھنور سے رہائی تو مل گئی
کشتی کو میری اب بھی کنارا ملا نہیں
راقمؔ گلے لگا نے کو سب لوگ مل گئے
مجھ سا انہیں نصیب کا مارا ملا نہیں
عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117
اپنی ہی دنیا اب بساتے ہیں لوگ
آپس کی رنجشیں مٹاتے ہیں لوگ
رہ کر سجدے میں یہ ہیں کرتے بُرا
یوں اپنی نیکیاں گنواتے ہیں لوگ
ہے دل بھی چیز کیا خبر ہے اُن کو
جس سے اس طرح توڑ جاتے ہیں لوگ
ہیں کچھ شاعر یہاں پہ اب تو ایسے
محفل جن کے لئے سجاتے ہیں لوگ
یہ جو پاتے سکوں بیاباں میں ہیں
گھر اپنا تو وہیں بساتے ہیں لوگ
تمہیں تو کیا خبر ہے اے دلِ مضطر
ہم کو کس طرح سے ستاتے ہیں لوگ
یہ بے چینی مثال ہے طلحہؔ کی
اس کی ہی مثال اب تو دیتے ہیں لوگ
جنید رشید راتھرطلحہؔ
آونورہ شوپیان
قلم کی نوک سے پھرا نقلاب نکلے گا
لہو کی شاخ پہ تنہا گلاب نکلے گا
تماشا دیکھنے آئیں گے سب خرد والے
کفن کو اوڑھ کے خانہ خراب نکلے گا
قلم کو ہاتھ میں لیکرکے حق شناسی کے
وہ کون ہے جو مثل بو تراب نکلےگا
بجھا دیا تھا جسے ظلم کی ہواؤں نے
اسی چراغ سے پھر آفتاب نکلے گا
ابھی جو لوگ تشدد پہ ہیں خموش یہاں
انہیں کے سرپہ ہی اک دن عطاب نکلے گا
تجھے خبر ہی نہیں تھی یہ آج تک شبنمؔ
ترا وجود بھی مثل حباب نکلے گا
شاہینہ خاتون شبنم علیگ
موبائل نمبر؛ 9415598203
بھول بیٹھا ہوں میں آب و دانہ تیری یاد میں
ساری دنیا سے ہوا بیگانہ تیری یاد میں
یہ دریچۂ خواب سے خوشبو کا آجانا تری
اور ہو جانا مرا دیوانہ تیری یاد میں
تُجھ کو چاہا اور چاہت کا صلہ یہ مل گیا
بن گیا ہے دل مرا غم خانہ تیری یاد میں
تُجھ کو پانے کے لئے کیا کیا نہیں کھونا پڑا
ہو گیا دامن مرا ویرانہ تیری یاد میں
صبر ہوسکتا نہیں لو جان ہی جانے کو ہے
ہو گیا لبر یز ہر پیمانہ تیری یاد میں
سر بسر پوشیدہ اس میں درد کی ہے داستاں
قیسؔ نے لکھا ہے جو افسانہ تیری یاد میں
کیسر خان قیس
بالا ضلع بارہ مولہ ٹنگواری
موبائل نمبر؛6006242157
آہٹ سی ہوئی نیم شب میرے گھر میں
احساس کسی اپنے کا ہوا اِس جگر میں
دلِ آزردگی میں نشاط انگیزی چھانے لگی
اُتر آئی تصویر محورِ سوچ سے نظر میں
سماں کیا ہی خوشنما ہوا تھا حجرے کا
ہوئی جو تھی رونق افزائی بام و در میں
شگفتگی اس قدر چھائی غنچئہ دل پر
ہوکے رقص کناں بول اُٹھا نظم و نثر میں
زبان مداح سرائی میں خوش بیان ہوئی
نغمے گانے لگی وصالِ جاناں کے اثر میں
اویسؔ باندھ لے رختِ سفر سوئے جاناں
قرار ملتا نہیں دل کو اب اس شہر میں
اویس ابن بشیر قادری
آلوچہ باغ،سرینگر،کشمیر