غزلیات

ادیب و شاعر
ادیبوں کی دُنیا بھی ہے کیا نرالی
خیالات اُونچے مگر جیب خالی
گو طالع میں اُن کے فقیری ہے لیکن
مناتے تصور میں ہیں ہر پل دیوالی
جہاں پہنچ پائے نہ پردار بھی کوئی
سفر اُن کا ہوتا ہے اِس جا خیالی
قیام اُن کا ہوتا ہے خستہ میں پھر بھی
سمجھتے ہیں یہ اسکو ایک دیوان عالی
نہ ہے بخت میں کُچھ رقم اِن کے راحت
مگر پھر بھی رُخ اُن کا ہوتا ہے جمالی
برستا ہے افکار سے ان کے مینہ
کبھی طورِ اقبالؔ اور کبھی طرزِ حالیؔ
اثاثہ ہے اُن کے فقط قلم و قرطاس
ہیں پھرتے وہ اِن کو لیئے ڈالی ڈالی
مغنی ہو کوئی یا پھر وہ در یوزہ گر ہو
نظر میں یہ اُن کے ہیں یکساں عالی
یہی مختصر سی ہے دونوں کی دنیا
یہ باغِ ادب کے ہیں بے تاج مالی
یہ محتاجِ زر اور زمیں ہیں نہ عُشاقؔ
انہیں دو گز زمیں چاہئے ربِ ؔ عالی

عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469

منہ پھیر کے یوں آج تو مجھ پر نہ جفا کر
اے جانِ جگر !پاس مرے دل کے رہا کر
کچھ دیر ابھی رکھ مجھے سینے سے لگا کر
تنہا نہ کبھی چھوڑنا دیوانہ بنا کر
ان سرخ حسیں ہونٹوں سے اک بار مرے یار!
مدہوش مجھے کر تو مئے عشق پلا کر
اک پل بھی گوارا نہیں ہے تجھ سے بچھڑنا
رکھ یوں ہی سدا دل کو مرے دل سے ملا کر
ہر سو ہے زمانے میں ترے حسن کا چرچا
جاناں! نہ کہیں جانا مرے دل کو چرا کر
ہاں دیکھ کے تجھ کو نہ کسی اور کو دیکھا
جایا نہ کرو جانِ جہاں جلوہ دکھا کر
شاداب ؔبہت ڈرتا ہے نفرت کے جہاں سے
رکھ یار اسے دامنِ الفت میں چھپا کر

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

ہم جو کہتے ہیں ہم نہیں کہتے
تم جو کہتے ہو کم نہیں کہتے
مسکرانا خوشی نہیں ہوتی
اشک بہنے کو غم نہیں کہتے
خوئے جاناں میں روئے گلگوں دیکھ
کوئے پُر خار کو ستم نہیں کہتے
خط پہ تحریر دل کی بپتا کو
خوان یغمائے قلم نہیں کہتے
بے کسی بے بسی میں جیتا ہوں
دم پسیں کو دودِ دم نہیں کہتے
تیری باتیں کسی کو تیرے سوا
تیرے سر کی قسم نہیں کہتے
میں نے دیکھا ہے دیکھنا تیرا
زخمِ باطل کو حُسنِ زعم نہیں کہتے
جو تمہاری نگاہ سے پیتے ہوں
وہ کبھی سَم کو سَم نہیں کہتے
دل دریدہ کی ناشنیدہ صدا
منیبؔ بزبانِ قلم نہیں کہتے

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ، بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481

یہ جو کہتے ہیں کہ محنت سے جہاں ملتا ہے
یہ بھی سچ ہے، مگر قسمت سے وہاں ملتا ہے

کچھ بہت تھک کے بھی محروم ہیں دنیا سے مگر
کچھ کو آرام سے ہر خوابِ گراں ملتا ہے

کاش انسان یہ سمجھتا کہ حقیقت کیا ہے
ہر عطا رب کی عنایت سے جواں ملتا ہے

وہ جو چاہے تو گرا دے بڑے ایوانوں کو
وہ جو چاہے تو گداؤں کو مکاں ملتا ہے

سب کو آزمایا جاتا ہے کسی صورت میں
کامیابی میں بھی پوشیدہ زیاں ملتا ہے

بس اُسی در سے ملے گی ہمیں عزت یا زوال
وہ جو چاہے تو اُسے ہر آسماں ملتا ہے

سید عامر شریف قادری
شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛7889714013

گزرے ہیں شب و روز ترےنام پہ
یوں ہی غلبہ رہے صبح کا شام پہ

یہ اشک جو بہتے ہیں انمول ہیں
گوہر کہاں ملتا ہے مفت دام پہ

دنیا لاکھ بدلے یہ قانون نہ بدلا
کہ میم فتح نہ پایا کبھی لام پہ

بجھتی دونوں سے پیاس ضرور ہے
پانی فوق رکھتا ہے مگرجام پہ

صحبت یار نے اُسے فنا کیا کیا
کہ ٹوٹ وہ بھی پڑا اب حرام پہ

فریب کھا گیا میرؔ بھی فکر تُرا سے
ہر بار خاص فاتح نہیں ہوتا عام پہ

میر ؔحسین
[email protected]>

قطعات
ٹوٹا جو دل کا شیشہ تو ٹکڑے بکھر گئے
کنکر سمیٹتا رہا موتی بکھر گئے
نکلا تھا آسمان کو چُھونے کی آرزو میں
بھٹکا میں جگنو دیکھ کے برسوں گذر گئے

اے مرگ آنے میں دیر نہیں کرنا
غم کے ماروں سے بیر نہیں کرنا

زیست سے سمجھو تہ اب ممکن ہی نہیں
خود کو دنیا کا تم اسیر نہیں 

اُجڑ اُجڑا میرا گلشن سامنے ہے
منہدم،میں خستہ و آہن سامنے ہے
کھوجتا ہوں خود کو جما دات میں
دل کا میرے ٹوٹا درپن سامنے ہے

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380