غزلیات

دیکھنا، نقشِ جبیں ایسی بھی آیت ہوگی
جس طرف ہاتھ اُٹھے، ایک کرامت ہوگی

شاخ سرخم ہے، مناجات سناتی ہے ہوا
موسم گل!یہ تری خوئے عبادت ہوگی

روزنِ در سے کئی نور کی کرنیں اُتریں
آج کی شب تو کوئی تازہ بشارت ہوگی

رقص ہوتا ہے کئی صدیوں کا جس کے اندر
کب مرے سامنے وہ بھاگتی ساعت ہوگی

اب کے اس جھیل میں پھینکوں گی میں ایسا پتھر
شور گہرائی میں اور سطح سلامت ہوگی

پھڑ پھڑاتا ہے یہاں میری صدا کا طائر
چُپ کی دیوار کے اُس پار سماعت ہوگی

رخسانہ جبین
دلسوز کالونی، نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7889434361

ہولے ہولے میرے دل میں اِک جہاں پلتا گیا
درد کی ہر ٹیس کا عُقدہ یہاں کُھلتا گیا

کسی طرح آداب ِاُلفت کا رکھے کوئی خیال
ہر کوئی جب خاکِ سنگِ آستاں مَلتا گیا

رنگ لائیں گی کسی کی کاوِشیں اور بے کلی
جب کبھی تَر آنکھ کا موتی نِہاں ڈَھلتا گیا

لب تبسم کے لئے آمادئہ فطرت ہوا
یوں وفورِ شوق سے کوہِ گراں ہلتا گیا

اے کہ جو یائے بصیرت ، عزم و اِرادہ لئے
اس بھری محفل سے کیسے کب کہاں ٹَلتا گیا

جو خیالِ یار کا رکھتا گیا کوئی خیال
وہ یہاں بھی پُھولتا ہے اور وہاں پَھلتا گیا

کھوٹے سِکّے بھی بہت بازار میں آتے ہیں میرؔ
یوں کبھی کب کھوٹ کا سکّہ کہاں چلتا گیا

میرؔ حسام الدین
گاندربل، کشمیر

زبانِ امن کی بُو جانتا ہے
جو ہندی اور اردو جانتا ہے
غزل کے نام پر میں نے سنا ہے
وہ کوئی جادو وادو جانتا ہے
یہاں سبزوں میں پوشیدہ ہیں دلدل
کہاں یہ راز آہو جانتا ہے
دلِ بغداد کو برباد کرنا
ترے جیسا ہلاکو جانتا ہے
کہاں تک میں ہوں اور میری رسائی
مجھے معلوم ہے تو جانتا ہے
وہ کتنا چاہتا ہوگا تجھے جو
ترے کپڑوں کی خوشبو جانتا ہے
تجھے ہی حاضر و ناظر سمجھ کر
بہانا کون آنسو جانتا ہے

مصداقؔ اعظمی
اعظم گڑھ ،یوپی
موبائل نمبر؛9451431700

مقامِ عام ہوکر بھی بیابانی کا منظر ہے
مرے گاؤں کا ہر کوچہ پریشانی کا منظر ہے
جو منظر دلکشی کے پیرہن میں مسکراتا ہے
وہ منظر بھی پسِ پردہ ہراسانی کا منظر ہے
میں اپنى تشنگی کا کیا مداوا اب کروں اے دل
جہاں جاؤں وہاں جلتے ہوئے پانی کا منظر ہے
یہ دل کافر، نظر سرکش، یہ ایماں نامکمل ہے
جو دیکھو ظاہراً ہر سُو مسلمانی کا منظر ہے
مرے آگے ہے جائے شب گُزاری درد کی وادی
مرے پیچھے خلِشؔ ہائے پشیمانی کا منظر ہے
حقیقت میں تو یہ ماتم نشینی شاعروں کی ہے
تمہیں لگتا ہے یہ کوئی غزلخوانی کا منظر ہے

خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

دن ہمارے لئے بھی وافر ہیں
ہم کہاں رات کے مسافر ہیں
روبرو آپ کے کبھی صاحب
کچھ بھی ہم بولنے سے قاصر ہیں
کام لیتے ہیں بس سیاست سے
حد سے زیادہ ہی لوگ شاطر ہیں
روز ہوتا ہے تذکرہ ان کا
وہ جو مدت سے غیر حاضر ہیں
جان سے وہ عزیز ہیں شاید
سارے اسباب ان کی خاطر ہیں
جانتے ہم ہیں ان کے بارے میں
کتنے پوشیدہ کتنے ظاہر ہیں
قتل و غارت گری ہے ہر جانب
اب بھی جلتے ہوئے مناظر ہیں
ایک ہی وجہ تو نہیں راقمؔ
اور بھی درد کے عناصرہیں

عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117

ٹوٹ کے گر جائیں گے جو پھول چمن سے
ہم بھی بچھڑ جائیں گے متاع سخن سے
وہ بے وفا بھی مجھے بھلا ہی تو بیٹھا
جس کی مہک آتی تھی ہمیشہ بدن سے
ہم کو بہت زندگی میں ہے جو ملا دکھ
ہم نے تُو مانگی خوشی تھی نیل گگن سے
یاد تری بھی بہت ہی آئی تھی چمن کو
خون بھی آیا بہت تھا زخمِ کہن سے
ہے جو مِری زندگی ابھی جو یہ باقی
تُو ہو ملن قبل اب مرے بھی مرن سے
کیا ہی ہوا زندگی میں غم ہی ملے جو
کم یہ بھی تحفہ نہیں ہے باغِ عدن سے
قیسؔ تُو باقی نہیں ہے عشقِ میں اُس کے
ہاں یہی آنکھیں مری کہے ہیں سخن سے

کیسر خان قیس ؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157

نہ دن کو رات کبھی صبح کو وہ شام کہے
اگر کہے تو زباں سے صنم کا نام کہے

سخن کے فن سے نوازا تھا خوب رب نے انہیں
کوئی بھی میر کے جیسا کہاں کلام کہے

یہی ہے آرزو میری سفر میں گر دلبر
“ملے تو اس کو ہمارا کوئی سلام کہے”

کہیں ستم ہیں کہیں تانا شاہی ظالم کی
خلاف اس کے بھلا کیسے کچھ عوام کہے

بجا رہا ہے جو دن رات حکم مالک کا
بھلا رہائی کی کب بات وہ غلام کہے

مجھے جو ملتی ہے عزت وہی وہ پائے گا
وہ ان سے لے کے مرا نام اپنا کام کہے

ہمیشہ خوشبو ہی نکلے ثمرؔ کے لہجے میں
کسی سے اردو زباں میں وہ جب پیام کہے

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار،
طالب علم
ڈیپارٹمنٹ آف اردو، دہلی یونیورسٹی

یقین ہم کو ہے تم اس چمن کو آباد رکھو گے
یہاں کے شادابی اور گلابی پھولوں کو شاد رکھو گے

یہاں الفت و اخوت کا بہت ہی بول بالا ہے
تیقُن ہے کہ آپس میں امن و اتحاد رکھو گے

ہمارے اس گلستاں میں امن کے پرندے رہتے ہیں
ہمیں ہے آس کہ تم یہاں سے دور صیاد رکھو گے

مثالی امن و اتحاد یہاں قائم ہے صدیوں سے
یقین ہے مجھ کو تم اسکو زندہ باد رکھو گے

چمن میں قادریؔ پھر سے صدا چھائی ہے خاروں کی
مگر خاروں کو جھڑ کر تم بہاریں یاد رکھو گے

فاروق احمد قادری ؔ
کوٹی ڈوڈہ، جموں