غزلیات

وہ پھر سے استخارہ کر رہا ہے
یعنی مجھ سے کنارہ کر رہا ہے

مناظر مجھکو دھندلے لگ رہے تھے
جہاں سے وہ نظارہ کر رہا ہے

اُٹھے گا پھر کوئی طوفاں اِدھر سے
ہوا کا رُخ اِ شارہ کر رہا ہے

مجھے اِس دل پہ کیونکر ناز نہ ہو
تمہیں پھر سے گوارہ کر رہا ہے

وہ میرے قتل کا میرے لہو سے
تعجب ہے کفارہ کر رہا ہے

تمہارے حُسن کی خیرات پا کر
تِرا سائل گزارہ کر رہا ہے

سردارجاوؔیدخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛9419175198

مجھے یار جب سے محبت ہوئی ہے
جفاؤں سے بھی اس کی اُلفت ہوئی ہے
خوشی کی رہی نہ ضرورت مجھے کچھ
غمِ ہجر کی جب سے قربت ہوئی ہے
سبھی کچھ ملا ہے مجھے عاشقی میں
کہ وحشت مری اب یہ شہرت ہوئی ہے
وفا دوستوں کی نہیں راس آتی
جفا ؤں سے دشمن کی رغبت ہوئی ہے
طلبگار جس کی سدا ہیں یہ آنکھیں
ملے دید اس کی یہ چاہت ہوئی ہے
یہ سانسوں کی اُلجھن چلے گی کہاں تک
مجھے گھر سے نکلے تو مدت ہوئی ہے
بھٹک میں رہا ہوں غمِ جستجو میں
نہ منزل کی اب تک وضاحت ہوئی ہے
یہ تنہائی ناسور بننے لگی تھی
کتابوں سے تھوڑی سی راحت ہوئی ہے
رہوں زندگی سے خفا روزوشب میں
یہ پروازؔ جی کیسی چاہت ہوئی ہے

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ ، جموں
موبائل نمبر؛9596644568

حوصلوں کے جب سفر سے سلسلے بھی جُڑ گئے
ہم کبھی جموں کبھی بیدر کبھی ہاپڑ گئے

شہر کی چینی نے اپنا ذائقہ بدلا نہیں
گاؤں سے گنے کے رس بھیلی، رساول ،گڑ گئے

حکمتوں کی ساری پہرےداریوں کے باوجود
روح کے پنچھی یہاں تن کے قفس سے اُڑ گئے

سنگ باری کی سزا کل ہی ملی تھی جب ہمیں
پھر تری گلیوں کی جانب آج کیسے مڑ گئے

دوستوں کی یہ کرم فرمائیوں کا فیض ہے
کچھ نئے الزام میرے نام سے بھی جڑ گئے

آپ کی تحویل میں ہوتے ہوئے افسوس ہے
کاغذِ دل پر لکھے لفظِ وفا مڑ تُڑ گئے

کل جو شیشے کی طرح تھے ٹوٹ جانے پر بضد
حوصلے ان کے بھی اب آہن کی صورت مُڑ گئے

مصداقؔ اعظمی
پھولپور اعظم گڑھ ،یوپی
موبائل نمبر؛9451431700

کئی سالوں سے اب اپنا نہیں ہے رابِطہ کوئی
مگر ہے آج تک تجھ میں مُسلسل مْبتلا کوئی
مری ہر سانس تیرے بِن ہو جیسے سانِحہ کوئی
رہا سکرات کی حالت میں جیسے دیر پا کوئی
نہ میرے پاس تم کو بُھول جانے کا وسیلہ ہے
نہ ہے اب اس طرح سے یاد کرنے کی وجہ کوئی
فراقِ یار کی سختی قیامت خیز ہے یا رب
ہوا نمناک صحرا تو سمندر جل گیا کوئی
مجھے آئے نظر اس میں کوئی منظر سرابوں سا
مری دیوار سے اب تو اتارے آئینہ کوئی
شریکِ رنج و راحت تم سے پہلے کون تھا اپنا
نہ تیرے بعد ہے ہم کو مَیسر دوسرا کوئی

خلِشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

نام اپنے وہ شام کرتا ہے
دل میں میرے قیام کرتا ہے

جسکا دیکھو کوئی جواب نہیں
مجھے وہ احترام کرتا ہے

کیا کہوں کیسے آج بھی ہردم
ورد میرا وہ نام کرتا ہے

دل چراتا ہے وہ مرا جس سے
خوب ایسا کلام کرتا ہے

درد دیتا ہے جو یہاں مجھ کو
وہ تو ایسا نہ کام کرتا ہے

عشق طلحہؔ ہے تجھ سے کتنا اسے
چرچہ اس کا وہ عام کرتا ہے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان، کشمیر

تجھ سے منہ اپنا موڑ دوں کیسے
اے وطن تجھکو چھوڑ دوں کیسے

پا میں زنجیر ہے محبت کی
یا خدا میں یہ توڑ دوںکیسے

شہر ،گاؤں میں ہیں مساجد سب
انکو خطرے میں چھوڑ دوں کیسے

نام ،رتبہ، یہ کارو بار مرا
ہیں جو پھیلے، سکوڑ دوں کیسے

کیوں خیالوں میں بے قراری ہے
اس توجہ کو موڑ دوں کیسے

بیر رکھکر جو جی رہے ہیں سب
انکے دل کو میں جوڑ دوں کیسے

مشق تب سے جو میری جاری ہے
اسکو اخترؔ میں چھوڑ دوں کیسے

شمیم اخترؔ
شبھ پورہ، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛9836225704

حادثے کیسے کیسے زندگی میں گذرجاتے ہیں
خواب برسوں کے پل بھر میں بکھر جاتے ہیں

کہیں پہ دیکھتی رہتی ہیں رستے مائیں
اور کہیں بہنوں سے بھائی بچھڑ جاتے ہیں

کسی کی ہوجاتی ہے مانگ ہی سُونی لوگو
تیر جدائی کے سینے میں اُتر جاتے ہیں

ہوش آتا ہے نہ سنبھل سکتا ہے پھر کوئی
زہرِ غم پیار سے جو لوگ پلا کر جاتے ہیں

دشت و صحرا میں تکلیف اُٹھانی ہوگی
اپنی مرضی سے کبھی لوگ سحرؔ جاتے ہیں

ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون، راجوری

ایک عجب سا شور مچا ہے دل والوں کی بستی میں
جانے کس کا پیار لُٹا ہے دل والوں کی بستی میں

یہاں محبت، رشتےناطے اب بھی رائج ہیں لیکن
پھر بھی ہر کوئی کیوں تنہا ہے دل والوں کی بستی میں

آج درو دیوار ہیں لرزاں ،سہمی ہوئی ہے بادِصبا
پھر کوئی مرزا قتل ہوا ہے دل والوں کی بستی میں

اب رہزن انصاف ہیں کرتے اور معصوم ہیں سولی پہ
حق کا تو دستور فنا ہے دل والوں کی بستی میں

جس کے تعاقب میں ہے دولت، شہرت اور گاڑی ،بنگلہ
آج وہی انسان بڑا ہے دل والوں کی بستی میں

ناہیدہ ملک
ڈوڈہ، جموں