خوش اَدا، خوش جمال دیکھاہے
یار اک باکمال دیکھا ہے
چاند شرمائے جس کے سائے سے
وہ روئے بے مثال دیکھا ہے
تپتے صحرا میں آج پیاسے نے
دیکھ آبِ زُلال دیکھا ہے
حسنِ جاناں جواب ہے جس کا
لَب کُشا وہ سوال دیکھا ہے
شُکر کی جاء ہے، آج آنکھوں سے
دو دلوں کا وصال دیکھا ہے
کھول کر چشمِ قلب کو میں نے
روبرو ہم خیال دیکھا ہے
دیکھ شادابؔ میں نے الفت میں
ماہ دیکھا نہ سال دیکھا ہے
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
بات کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
نرم لہجے بڑے نایاب ہوا کرتے ہیں
بے سبب اتنی اذّیت نہ ہمیں دی جائے
دل دُکھانے کے بھی اسباب ہوا کرتے ہیں
جن کے چہروں پہ اُداسی کے گھنے جنگل ہوں
لوگ ایسے کہاں شاداب ہوا کرتے ہیں
ایک تو یوں بھی میّسر نہیں رہتے ہم لوگ
اور اُس پر کہ گراں یاب ہوا کرتے ہیں
خامشی سے کوئی طوفان اُٹھے گا جاوؔید
ٹھہرے پانی میں ہی گرداب ہوا کرتے ہیں
سردارجاوؔیدخان
مینڈھر، پونچھ،جموں
موبائل نمبر؛9419175198
دورانِ سفر مل کر بچھڑا تو بہت رویا
گاڑی سے مسافر جب اُترا تو بہت رویا
پردیس سے گھر اپنے لوٹا تو بہت رویا
آتے ہی تجھے اے ماں ڈھونڈا تو بہت رویا
کیا حال ہوا میرا یہ کیسے بتاؤں میں
تربت پہ تری جب میں پہنچا تو بہت رویا
احباب پرانے سب آ آ کے ملے مجھ سے
جب حال مرا سب نے پوچھا تو بہت رویا
برسوں کا وہ بچھڑا تھا رو رو کے ملا مجھ سے
پھر میں بھی اسے مل کر رویا تو بہت رویا
جس پیڑ کے سائے میں ملتے تھے کبھی ہم تم
اس پیڑ کو جب کٹتا دیکھا تو بہت رویا
یادوں میں رفیقؔ اس کی کھویا ہوں میں کچھ ایسے
جب جب بھی خیال اس کا آیا تو بہت رویا
رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سپرانٹنڈنٹ BSNLآکولہ مہاراشٹرا
جی رہا ہوں زندگی کو جس کے میں احسان پر
لب کشائی ہی نہیں ممکن ہے اس کی شان پر
ُایسا ہو محبوب جس کو معجزہ سے تم لگو
جب بھی وہ ڈالے نظر جسمِ جمالستان پر
اس کے مل جانے کا حتمی تذکرہ کیسے کروں
بات آکر رُک گئی اک بار پھر اِمکان پر
کل جو تیرے گھر میں اک مہمان آنے والا ہے
آ چکا ہے رزق اس کا تیرے دسترخوان پر
اس کی بربادی سے بچنے کی تدابیریں کریں
تبصره کیونکر ہیں کرتے آپ سب طوفان پر
وقت پڑنے پر وہی تجھ کو کرے گی اجنبی
فخر کرتا ہے بہت تو اپنی جس پہچان پر
کرنا ہے محسوس بس اک دوسرے کو اب ہمیں
لگ گئی ہے روک لمسِ جسم کے ارمان پر
جَو کی روٹی، ہاتھ کا تکیہ چٹائی بسترا
بادشاہی کی ہے ہم نے اتنے سے سامان پر
راستے کے پیچ و خم سے ہم نے منزل چھین لی
بحث کرتے ہی رہے وہ مشکل و آسان پر
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی، انڈیا
کھلیں گے پھول کلیاں پھر مٹک کر مسکرائیں گی
فقط ہم تم نہیں ہوں گے بہاریں آتی جائیں گی
یہ پھولوں کی نزاکت سن!کھبی مدھم نہیں ہو گی
گلوں میں بلبلیں پھر سے اُڑیں گی، چہچہائیں گی
یہ برگِ ارزق و اخضر جو شاخِ گُل کی ہیں زینت
ہوائیں شوق سے ان کو سدا یونہی ہنسائیں گی
یہ باغِ بوستاں کی رونقیں ہرگز نہ ہو نگی کم
گلوں میں دل لگانے کی ادائیں بڑھتی جائیں گی
ہے یہ دنیا ئے رنگ و بو ازل سے ہی چمن آرا
یہاں کچھ قمریاں گا کر گئیں کچھ اور گائیں گی
یہ رُت دیکھو ،ہوا دیکھو یہ سنبل کی ادا دیکھو
یہ کوئیل کی صدا دیکھو فضائیں گنگنائیں گی
طلوع سورج کا ہونا ڈھوب جانا پھر نکل آنا
زمانے کی یہی انمول یادیں یاد آئیں گی
کروں میں آشنا کیونکر تجھے جگ کے حوادث سے
تجھے ارشاد دل کی دھڑکنیں از خود بتائیں گی
ارشاد علی ارشادؔ
مہو بانہال، جموں
موبائل نمبر؛9906205535
طرحی غزل
(ہم شریف النفس تھے نایاب ہو کر مر گئے)
اپنے حصّے میں یہ آیا سو اُٹھا کر چل دیئے
جھولی میں کچھ ہم دُرِ نایاب ہو کر گھر گئے
زندگی کی تگ و دو میں ہم بہت پیچھے رہے
دامنِ دل بھر تے بھرتے آتشِ دل مر گئے
دار پہ کھینچے مجھے تقدیر ایسی ہے نہیں
نار میں نمرود کے ہم پہلے ہی جل کے مر گئے
کیوں ہمارے نام اپنی چرچا کوئی ایسا کرے
جیسے ہم کمیاب تھے نایاب ہو کے مرگئے
آنکھ کھو لو ، دیکھ لو کیسا ہے بزمِ نشاط
ہم شکستہ دل کو لیکر اپنے بال و پر گئے
آتشِ سوزاں سے واقف کیا رگ و ریشہ نہیں
اِک اُمید لَو بڑھائی تھے جہاں پہ ڈُر گئے
قیمتوں کا کیا ہے یاور ؔآج ہیں تو کل نہیں
’’ہم شریف النفس تھے نایاب ہو کر مر گئے‘‘
یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندواڑہ
مسکان میرے لب پر سجا جاؤ بہت ہے
روٹھے ہوئے اس دل کو منا جاؤ بہت ہے
اپنوں کی نظر لگنا اس دور میں ممکن ہے
اپنوں سے بھی اپنے کو چھپا جاؤ بہت ہے
ہے حکم بھی آواز کے پرے کا بہت سخت
پر صوتِ خفیف اپنی سنا جاؤ بہت ہے
ہر وقت خیالوں میں گردش ہے تیرا رو ہی
نظروں میں تو ایک بار بھی آجاؤ بہت ہے
ہم روز تیرے نام کی تسبیح ہیں پڑھتے
ہونٹوں پہ میرا نام ہی گر لا جاؤ بہت ہے
جس خواب کی دنیا سے رشتہ ہے میرا شاہیؔ
اس خواب کی دنیا میں تم آجاؤ بہت ہے
سبطین رضا شاہیؔ
[email protected]
مردہ دل ہی نہ تیری پہچان رہ جائے
دل بیدار رکھ کہ باقی شان رہ جائے
اُلفت رکھ ہر اک سے اخلاص والی
کہ زندہ تیری بھی پہچان رہ جائے
وہ آئے گھر تو اندازِ الفت رکھنا
کہ چند روز گھر اور مہمان رہ جائے
تیری پیشانی پر چھوڑ کر آثار اپنا
بعد میرے محبت کا نشان رہ جائے
بہت تھوڑی تھی قسمت میں الفت تیری
ہر ایک کے لب پہ جاری یہ داستان رہ جائے
تیری کافر ادا نے سب کو مار ڈالا
دعا ہے باقی میرا بھی ایمان رہ جائے
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
آؤ مرے پیارے جیتے ہیں ہم
اب تیرے سہارے جیتے ہیں ہم
فرقت کا جو تیری مجھے ملا غم
اسی غم کے مارے جیتے ہیں ہم
یہ نشہ کسی مے سے کم نہیں ہے
یہ کب سے پکارے جیتے ہیں ہم
کیا ہے تجھے اس کا اندازہ
گن گن کے یہ تارے جیتے ہیں ہم
طلحہ ؔکی دعا ہے یہ ہی اب تو
جیتے رہو پیارے جیتے ہیں ہم
جنید رشید راتھرطلحہؔ
آونورہ شوپیان
[email protected]
آج خود کو سب سے یگانہ کر لیں
درد چھپانے کا کچھ تو بہانہ کر لیں
تیری عمر ہے کھیلنے کودنے کی ابھی
میری مصلحت مان عشق سے کنارا کر لیں
ذرا چھوڑ دے اس کو اس کے حال پر
پھر کھبی اسی سے محبت دوبارہ کر لیں
وہ تجھ کو کھبی چھوڑ کر نہیں جائیگا
جدا ہونے کا تو ہی اشارہ کر لیں
صرف پانا ہی محبت نہیں ہوتا ہے ،معراجؔ
اس کو آلودہ کہنا بھی گوارہ کر لیں
معراجؔ نذیر ڈار
ریشی پورہ زینہ پورہ ،شوپیاں
موبائل نمبر؛7889562643