چھوڑ آتا ہے راستہ کس کو
ساتھ دیتا ہے فاصلہ کس کو
وقت خالی گُزر گیا اپنا
بھیڑ میں ڈھونڈتا رہا کس کو
روز ہاتھوں تراشے جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہوں خدا کس کو
ہجر کے ہوں نہیں جہاں موسم
ایسی دنیا ملی بھلا کس کو
کتنی خاموشیاں ہیں صحرا میں
کون دے گا یہاں صدا کس کو
اوس آنکھوں کی پی گیا ساری
رنگ سادہ تھا بھا گیا کس کو
اپنا سایہ بھی چھوٹ جاتا ہے
ساتھ دیتا ہے قافلہ کس کو
دل پہ الزام کیا دھریں شیداؔ
راس آئی تری وفا کس کو
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ
کشمیر موبائل نمبر؛7889677765
مہربانی جب تلک چلتی ہے چل
زندگانی جب تلک چلتی ہے چل
شور ہے بس سانس کی ہی ڈور سے
یہ روانی جب تلک چلتی ہے چل
شوق پر رکھ عزم کی بنیاد تو
جاں فشانی جب تلک چلتی ہے چل
دل کسی کا مت دُکھا تو صبر کر
بے زبانی جب تلک چلتی ہے چل
کھو نہ جانا منزلوں کی چاہ میں
بے نشانی جب تلک چلتی ہے چل
دوش پر رکھ ہوش کے ہی پھول تو
خوش بیانی جب تلک چلتی ہے چل
اک سفر ہے رات دن بے نام سا
پاسبانی جب تلک چلتی ہے چل
ظرف کی ہے بات گوہرؔ بات کر
دُرفشانی جب تلک چلتی ہے چل
گوہر ؔبانہالی
بانہال جموں، موبائل نمبر؛9906171211
دل کوئی محرم دکھائی دیتا ہے
خاک اور خاکم دکھائی دیتا ہے
غم ستم آلام اور کیا کیا کہوں
تب جا کر حاتم دکھائی دیتا ہے
جامۂ آدم میں رہ کر دیکھوں تو
کیا گلِ آدم دکھائی دیتا ہے
جذبۂ دل میں مرے کارِ جہاں
ہاں بہت ہی کم دکھائی دیتا ہے
مجھ کو تو مُطلق انا،حور و قصور
فتنۂ عالم دکھائی دیتا ہے
شہر ناپرساں کا مسکن ہے مگر
اک بڑا رستم دکھائی دیتا ہے
اک دمامہ ہے حیاتِ جاوِداں
اشک جوشاں کم دکھائی دیتا ہے
حال ہے زاد و زبوں ،دستم بجزٰ
پیکرِ آدم دکھائی دیتا ہے
یاد پھر پتھر پڑیں گے ایک روز
درد جب پیہم دکھائی دیتا ہے
رنجہ خاطر! سب ملولے نیم کش!!
کیا یہ یاورؔ کم دکھائی دیتا ہے
یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160
بے وفا ، بے رحم، بے خبر تک نہیں
ہم نشیں، ہم نوا، ہم سفر تک نہیں
در بہ در کا بھٹکنا غلط ہے مگر
بے گھری کے سوا ایک گھر تک نہیں
آج پھرسے اُنہیں کو صدارت ملی
پاس جن کے غزل کا ہنر تک نہیں
ہم کہاں آ گئے اس کڑی دھوپ میں
سائباں کے لئے اک شجر تک نہیں
لوگ بھی خامیاں دیکھتے رہ گئے
آئینے پر کسی کی نظر تک نہیں
وہ کھڑا ہے قتل کا ارادہ لئے
جس گلی سے ہمارا گذر تک نہیں
دو قدم ہی سہی ساتھ لے لو ہمیں
ہم سا دوجہ کوئی معتبر تک نہیں
مشکورؔ تماپوری
تماپور ، کرناٹک
اِرمانوں کی ِتجوری ہے
دِلــ‘مِرا ہُوا جو چوری ہے
ہر پل تجھکو نیہاروں میں
چاند کو تکتی چکوری ہے
سُنتا ہوں غور سے تیری
باتیں کرتا چٹوری ہے
پیاسا ہوں‘ چاہئے مجھکو
ابلیم کی اِک کٹوری ہے
وشواس منیؔ کا ٹوٹے ناں
کچّے دھاگے کی ڈوری ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
بھدرواہ، جمّوں کشمیر
موبائل نمبر؛9596888463
رنگت ہے یہ لالی ہے اب پھولوں کے حوالے
ہم نے تو کئے خواب پرندوں کے حوالے
بے آس ہو کے ہم نے اب خوابوں کا گھروندا
خود اپنے ہاتھوں کر دیا شعلوں کے حوالے
اُس پیار کی ہر بوند کو اس دل سے جُدا کر
آنکھوں کو اپنی کر دیا اشکوں کے حوالے
تصویر کیا بنائیں ، بصارت تو چھن گئی
قرطاس ہم نے کر دیا رنگوں کے حوالے
خاموش میرا دل ہوا اُس حادثے کے بعد
گُم صُم رہایہ تب سے خیالوں کے حوالے
اسرا ر ؔ تمہیں بھا گئی ، پر کون سی ادا؟
جو تم نے کیا خود کو دشمنوں کے حوالے
سید اسرارؔ نازکی
لولاب کپواڑہ،حال نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7889714415
اب تو آجاؤ کہ اس کام کو حلال کرو
دن میں پرہیز صحیح شام کو حلال کرو
روز پیتے ہیں جو ان کی ہے یہی فرمائش
چھولو ہونٹوں سے اس جام کو حلال کرو
مت لیا کر تو غریبوں سے منافع زیادہ
حج پہ جانے سے قبل دام کو حلال کرو
ساری دنیا جو اسے آج طوائف بولے
پاک سنِدور سے اس نام کو حلال کرو
مال چوری کا ہے کاجل کا کفارہ دے دو
اپنی آنکھوں کے اِن بادام کو حلال کرو
اپنی نظروں میں مدینے کو بساؤ گے تبھی
پہلے پلکوں کے در و بام کو حلال کرو
لوگ کہتے ہیں فلکؔ جی تو بڑا شاعر ہے
سیکھ لکھنا میاں الزام کو حلال کرو
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
چشمِ تَر کی داستان کیا لکھوں
ٹوٹے دل کے ارمان کیا لکھوں
ایسے اپنے آشیانے کو میں
خوبصورت سا زندان کیا لکھوں
عمر بھر جن پھولوں کو خونِ جگر دیا
مرجھا گئے اے باغبان کیا لکھوں
خدا کرے یہ عید خوشیوں کا پیغام لائے
زہن ہے ہر شخص کا پریشان کیا لکھوں
یہ جو اندر سے کچھ ٹوٹ کے بکھر گیا
کس کی ہے یہ فغان کیا لکھوں
مہرؔ کوئی آہ بھی نہ نکلے کہیں سے
ایسے میں بے زبان کیا لکھوں
شاہستہ مہرؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ، کشمیر
[email protected]