غزلیات

اک طلب دل کو تری شام وسحر ہے آج بھی
دھونڈتی بس جابجا تجھ کو نظر ہے آج بھی
تیرے روشن رخ سے روشن ہے یہ بزمِ کائنات
تیری عظمت کیا ہے یہ کس کو خبر ہے آج بھی
چاند بھی جچتا کہاں ہے اب مری ان آنکھوںمیں
دل فدا تجھ پر مرا رشکِ قمر ہے آج بھی
سنگ دل ہرگز نہیں میں کر یقیں اس بات کا
اس دھڑکتے دل میں الفت کا اثر ہے آج بھی
چھو لیا تھا جس کو تو نے کر کے الفت کی نظر
دیکھ وہ پتھر جہاں میں اک گہر ہے آج بھی
جیت کر بازی جو ہاری تھی کسی کے واسطے
ہار وہ میرے لئے وجۂ ظفر ہے آج بھی
پڑھ کے اشعار اے شادابؔ مجھ کو یوں لگا
جیسے ہر اک شعر میں خونِ جگر ہے آج بھی

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں لیکن سو نہیں سکتی
ہے دل میں کرب شِّدت کا مگر میں رو نہیں سکتی

مُجھے تسلیم یہ ہر گام پہ تکلیف دیتے ہیں
مگر اعضا بدن کے ہیں میں اِن کو کھو نہیں سکتی

نگاہِ شوق بے شک ہر قدم پر پھول برسائے
جمی ہے میل جو دل پر اُسے وہ دھو نہیں سکتی

جو بوئے دوسروں نے اُن پہ گو میں چل تو سکتی ہوں
مگر میں خود کسی کی راہ میں کانٹے بو نہیں سکتی

میری اِس بات پر روبینہؔ خود ہی محوِ حیرت ہے
کسی کی کیا بنے گی وہ،جو اپنی ہو نہیں سکتی

روبینہ میر
بڈھون راجوری، جموں کشمیر

پھول خوشبو روشنی جوئے رواں بنتا گیا
علم و عرفاں آگہی سوزِ نہاں بنتا گیا
ہر گھڑی کر کے یقیں میں خوش گماں بنتا گیا
قتل و غارت کر کے میرا حکمراں بنتا گیا
میں نے تنکا تنکا چن کر تھا بنایا آشیاں
آج کیوں میرا مکاں آتش فشاں بنتا گیا
یہ بھی ہے ان کی نوازش یہ بھی ان کا ہی کرم
ہر طرف ان کا ہی گیسو سائباں بنتا گیا
دل نے سمجھا مل گیا منزل کا بہتر راستہ
وصل کی پہلی ہی شب سے نیم جاں بنتا گیا
ہر گھڑی کرتا رہا مجھ پر وہ چپکے چپکے وار
زخم اتنا بڑھ گیا میں نا تواں بنتا گیا
رفتہ رفتہ ان کی باتیں بھی معطر ہوگئیں
اس لئے اب گھر بھی میرا بوستاں بنتا گیا
کب تلک جھٹلائے گا تو اپنے رب کی نعمتیں
ذرہ ذرہ قطرہ قطرہ مدح خواں بنتا گیا
اس کی رحمت کا بھروسہ خود بخود ہونے لگا
’’ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ‘‘
مضطرب رہتا تھا ہر پل یہ سعیدؔزِ غمزدہ
اس کی رحمت سے یہ بندہ شادماں بنتا گیا

رشحات قلم سعیدؔ قادری
صاحب گنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9199533834

اک حسیں جب جہاں سے اٹھتا ہے
چاند ، جوں آسماں سے اٹھتا ہے

علم کی اب رہی نہ باقی قدر
علم ، پیر و جواں سے اٹھتا ہے

جل رہا ہے کسی کا دل شاید
اک دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے

’’نا‘‘ سے بیٹھے کوئی تو محفل میں
کوئی محفل میں ’’ ہاں‘‘ سے اٹھتا ہے

نکہتِ گُل ، گلوں سے کوچ کرے
ابَر ، موج رواں سے اٹھتا ہے

آہ ، نکلے زبانِ عاجز سے
’’ہائے‘‘ درد نہاں سے اٹھتا ہے

تم نہ ہرگز اداس ہو انجم ؔ
موسم گل ، خزاں سے اٹھتا ہے

فریدہ انجم
پٹنہ سٹی، بہار

کوئی ملتی نہیں دوائی کیوں ؟
ہے محبت میں جگ ہنسائی کیوں ؟

دوست ہو کر وہ روز کرتا ہے
پیٹھ پیچھے مری بُرائی کیوں ؟

دل مرا سوچتا ہے یہ اکثر
ہے محبت میں بے وفائی کیوں ؟

وہ خدا ہے فنا جو کر دے گا
اس نے دنیا یہ پھر بنائی کیوں ؟

خط کے الفاظ سیدھے سادے ہیں
پھیکی پھیکی ہے روشنائی کیوں ؟

میں بھی ہوں اور قمرؔ شبستاں بھی
ہائے ! محبوب سے جدائی کیوں ؟

ڈاکٹر قمرِ عالم قمرؔ
محلّہ شیخپورہ سوپول ، بیرول ، دربھنگہ
موبائل نمبر؛9507502333

تیرے عشق میں خود کو برباد کیا
بھری جوانی میں لذتوں کو قید کیا

تیری باتوں پہ ایسا عمل کیا میں نے
روح کو جاں سے بھی آزاد کیا

تو ناامیدی کے دام میں نہ آ اے دل
ہم نے تو صحرا کو بھی لہو سے شاد کیا

تُجھ سے اُلفت کے عوض ہم نے
خود کو اذیتوں سے ہم نے آباد کیا

راشدؔ تم نے تو خود ہی اپنا معیار کھویا
تو ہی بتا دے تو نہ کب اُسے یاد کیا

راشد احمد راشدؔ
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105