غزلیات

وقت گزرا ہے بہت لمحۂ تاخیر میں مل
آج تو میرے ہراک خواب کی تعبیر میں مل

میری آزادیٔ غیرت تُو کہاں ہے آخر
پابہ زنجیر ہوں تو حلقۂ زنجیر میں مل

تو کہے جرمِ محبت بھی میں کرتا ہوں قبول
بے گناہی میں نہیں تو کبھی تعزیر میں مل

آدمیت کے اصولوں سے ہے واقف یہ زمین
روح احساس کبھی وادیٔ کشمیر میں مل

استعاروں میں تمہیں دیکھ ہے لیا اکثر
روز پڑھتا ہوں تمہیں شوخیٔ تحریر میں مل

اب بہانے نہ بنا پردۂ کلفت سے نکل
کفر میں عذر ہے تو نعرۂ تکبیر میں مل

اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ ،سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9906540315

ہم بھی تو عشق زاد ہیں ضد پر جو آئیں ہم
’’ معشوق روٹھ جائے تو کیوں کر منائیں ہم ‘‘

آہی گئے تو راکھ ہوں اس شعلہ زار میں
کس طرح ظرفِ آگ سے دامن بچائیں ہم

اے دردِ غم شناس کہیں آکے تو ٹھہر
اب کتنی دیر یوں ہی بھلا زخم کھائیں ہم

واجب ہے سوئے دار چلیں چوم لیں رسن
یہ رسمِ عاشقی بھی ستمگر نبھائیں ہم

روشن ہو ماہِ وصل کہ اب اے شبِ فراق
اشکوں سے یوں چراغ کہاں تک جلائیں ہم

کب تک تماشا دیکھیں ہواؤں کی رزم کا
اک سر پھرا سا گُل بھی چمن میں اُگائیں ہم

اب خود سے ہمکلام ہیں شیداؔ یوں ہجر میں
اچھی غزل ہے یار پہ کس کو سنائیں ہم

علی شیدا ؔ
نی پورہ، نجدون، اننت ناگ
موبائل نمبر؛7889677765

قصیدے گیت لکھے گنگنائے ہیں کیا کیا
تمہارے عشق میں فن مجھ کو آئے ہیں کیا کیا
ستم ہے پھر بھی تو میری نہیں ہوئی اب تک
حیات میں نے ترے ناز اٹھائے ہیں کیا کیا
حیا ہے ہوشربا اور ہنسی ہے فتنہ ریز
تری اداؤں نے انداز پائے ہیں کیا کیا
تپش پہ اپنی ہے سورج کو طمطراق بہت
اسے بتاؤ کہ دنیا میں سائے ہیں کیا کیا
یہی زمین جو گنجینہ آب و گلِ کا ہے
اسی میں لعل و جواہر سمائے ہیں کیا کیا
خیال، ذہن، نظر، یاد، دل سی زندہ باد
اے جان تیرے لئے بھی سرائے ہیں کیا کیا
مجھے پتہ ہے اسی سادگی کے پردے میں
مزے حیات کے تو نے اُڑائے ہیں کیا کیا
رفاقتوں کا مری جادو تو ذرا دیکھو
تمہاری ذات میں بدلاؤ آئے ہیں کیا کیا

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی

ان عذا بوں کو کہوں کیا دلبری
میرے رب کچھ کم بھی ہو یہ کم تری
عمر گزری کی یونہی بس چاکری
دے کسی دن مجھکو بھی اب سروری
کِھل اٹھے تارے تماشا خوب ہے
چاند روئے مول لی کیوں برتری
یہ گماں تیرا ہے نقصِ عقل ہی
کون کر سکتا ہے میری ہمسری
لفظ سارے نذرِ دریا کر دئے
تم کہو گے کیا،ملی گر جل پری

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

مجھے اب زندگی کی پھر نئی سی بات لکھنے دو
ادھورے سے وہ سب سپنے وہی جذبات لکھنے دو
ترا روٹھا ہوا چہرہ قیامت ہے میری خاطر
جو گزری ہے مرے دل پر وہ احساسات لکھنے دو
الیکشن جب بھی آتا ہے پرانا شور اٹھتا ہے
نئے ذہنوں کی آنکھوں پر نئے حالات لکھنے دو
میری قسمت ذرا مہلت مجھے دو چار دن دینا
ابھی کچھ بات باقی ہے وہ ساری بات لکھنے دو
گناہوں سے اگر بچنا ہے تو کچھ بول مت حمزہ
اگر یہ دن کو چاہیں دن یا چاہیں رات لکھنے دو

شہاب حمزہ
موبائل نمبر؛8340349807

تضمینی غزل
بر مصرع پُرنم اَلہ آبادی

دوست پر اعتبار ہوتا ہے
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
عشق تو ایک بار ہوتا ہے
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
خار ہو گل ہو یا ستم گر ہو
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
عشق نے حسن سے کہا ہے یہ
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
لوگ دیوانگی میں کہتے ہیں
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
دل نے دلدار سے کہا دلبر
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
تو مِرے یار کو نہ رسوا کر
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
عکس کو بھی کہا یہ درپن نے
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے
یار اچھا ہو یا برا شاہدؔ
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے

علی شاہد ؔ دلکش
کوچ بہار ، مغربی بنگال ، انڈیا
موبائل نمبر؛8820239345

اپنی اپنی سب نے ہے بسائی دنیا
کب کسی کے ہاتھ میں ہے آئی دنیا
اس کی فطرت میں ازل سے بے وفائی ہے
ساتھ کب کس کا کہاں ہے نبھائی دنیا
نہیں ملتی ہے کسی کو، جانتے سب ہیں
پھر بھی ذہن ودل پہ ہے کیوں چھائی دنیا
ہم تو درویش ہیں ہمیں کیا لینا اس سے
ہم کو تو ایک آنکھ بھی نہیں ہے بھائی دنیا
لحد میں مجھ سے یہ کہنے لگے نکیر و منکر
جس پہ تو مرتا تھا بتا ساتھ وہ آئی دنیا
ہم جو زندہ تھے تو کوئی نام بھی نہیں لیتا تھا
مر مٹے ہیں تو اب دیتی ہے دٌہائی دنیا
چھین کر مجھ سے میرا چین وسکوں ثاقبؔ
ہم کو کس موڑ پر آخر ہے لائی دنیا

ثاقب فہیم شاداب
کریوہ شوپیان،موبائل نمبر؛8899134944

وقت گُزاری ہوتی ہے
جب بیکاری ہوتی ہے
سپنے اُس کو آتے ہیں
نیند ہماری ہوتی ہے
دل دروازے پر اکثر
وحشت طاری ہوتی ہے
ہنستے ہم بھی تھے لیکن
اب بس زاری ہوتی ہے
عشق کی جیسی لوگوں میں
اک بیماری ہوتی ہے
ماں کو بُرا کہنے والے
ماں تو پیاری ہوتی ہے
اب کے زمانے میں اِندرؔ
بس لاچاری ہوتی ہے

اِندرؔ سرازی
ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731

ہر وقت لیتی ہے امتحان زندگی
ہے داستانوں میں اک داستان زندگی
پُر فتن دور کی بے چینی میں
کب دیگی سکون و اطمینان زندگی
عشق تجھ سے کرنے کا الزام ہے
پھر کیوں ہےیہ پریشان زندگی
در پہ کس نے یہ دستک دیدی ہے
کون ہم سب پر ہے مہربان زندگی
تسلیم نہ رضا کہیں نظرآتی ہے
گزرتی کیسے تری اے مسلمان زندگی
طواف کرتا ہوں شب و روزیوں
بن گئی ہے مری وہ آستان زندگی
مرجھائے چمن میں تازگی کب آئے
کب پڑے گی میر ؔوہ باران زندگی

میر حسین
سازنی پورہ، بی کے پورہ بڈگام
[email protected]

زندگی اک خوبصورت خواب لکھنا
میرے سوال کا کچھ جواب لکھنا

یہ ہجر کی تڑپ یہ وصل کا انتظار
زخم دل کے بےحساب لکھنا

درد دل میں ہیں مدفن سارے
اس پہ مختصر سی کتاب لکھنا

کانٹوں کے اس آشیانے کو تم
دلکش سا کوئی گلاب لکھنا

مہرؔ اس ماہ وش چہرے کو ذرا
دور سے چمکتا آفتاب لکھنا

شائستہ مہر ؔدلنوی
دلنہ بارہمولہ
[email protected]