زخموں پہ چھڑکتا ہوں نمک اور زیادہ
اشعار سے آتی ہے مہک اور زیادہ
آنکھوں کی گزارش پہ اُمڈ آیا ہے طوفان
اے موسمِ نمناک مہک اور زیادہ
جتنا بھی چھپایا ہے میں نے رنگِ الم کو
رنگین ہوئی غم کی دھنک اور زیادہ
پھولوں سے لپٹتی نہیں ہے بادِ صبا بھی
اے طائر بےتاب چہک اور زیادہ
اے اشک ترا رتبہ امیروں نے گرایا
آنکھوں سے غریبوں کی چھلک اور زیادہ
کچھ آگ بہاروں نے لگائی ہے چمن میں
اے آتشِ دل اور دہک اور زیادہ
جب بات کروں حسن کی اور اس پہ وفا کی
رخسار پہ آتی ہے چمک اور زیادہ
اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ، سرینگر ، کشمیر
موبائل نمبر؛9906540315
غزل
جب سے جنونِ دید میں ہم مبتلا رہے
صحرا نشین نارسا یہ نقشِ پا رہے
اعلانِ عام ہے لکھا دیوار و در پہ یہ
کوئی زباں نہ شہر میں اب برملا رہے
شیریں زبان ہیں یہاں اہلِ سخن سبھی
شاعر کوئی یہاں خلشؔ آتش نواءرہے
کیونکر علاجِ غم کروں میں موت آنے تک
گر تو نہیں تو غم ترا یہ دیرپا رہے
کل تک جو میرے اپنے مرے آشنا رہے
بربادیوں میں میری وہ بن کے خدا رہے
خوش ہے اگر اسی میں وہ مجھ سے جدا رہے
تا عمر رابطوں کا مگر سلسلہ رہے
خلشؔ
اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر
[email protected]
جو سزاوار نہیں ہوتے تھے
اصل فنکار نہیں ہوتے تھے
کچھ مِری جان کے دشمن بھی تھے
سب مِرے یار نہیں ہوتے تھے
جنگ پہلے بھی ہوا کرتی تھی
پیچھے سے وار نہیں ہوتے تھے
ہم اُنھیں شعر سناتے تھے جو
دلِ بیمار نہیں ہوتے تھے
جب تلک کوئی بتاتا نہیں تھا
ہم خبردار نہیں ہوتے تھے
قتل پہلے بھی ہوا کرتے تھے
سرِ بازار نہیں ہوتے تھے
چارہ گر تو بڑا قابل تھا مگر
ہم ہی بیمار نہیں ہوتے تھے
اِندرؔ سرازی
پرشولہ، ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731
بلاکی دھوپ میں تالاب سوکھ جاتے ہیں
پرندے پیاس نہ جانے کہاں بُجھاتے ہیں
شعور آیا نہیں جن کو بات کرنےکا
زباں پہ وہ بھی مری کنڈیاں لگاتے ہیں
زمانہ جن کو بہت پارسا سمجھتا ہے
وہ لوگ دن میں نہیں رات میں نہاتے ہیں
نہ جانے کس لئے بادل گرجنے لگتا ہے
وہ اپنی زلف کوچھت پرجہاں سُکھاتےہیں
تم تواپنے صوفے سے اک پل ذرا نہیں ہلتے
مکاں کے ہم کئی زینوں کو پھاندجاتے ہیں
امیرِ شہر کی دولت خموش رہتی ہے
فقیر شہر کےسکے ہی کھنکھناتےہیں
ہزاروں عیب حقیقت میں جن کے اندر ہیں
زمانے بھر کو وہی آئینہ دکھاتے ہیں
بہت حسین ہیں دنیا کی تتلیاں لیکن
تمہارے حسن کے جلوے نظر کو بھاتے
وہاں توہوتی ہے ہر گام قاتلوں کو سزا
ہمارے ملک کے قاتل مزے اُڑاتے ہیں
بدن میں درد نہیں پھیلتا ہوا کی طرح
ترے ستم پہ مرے داغ مسکراتے ہیں
وہ اپنے غصے کا اظہار ہی نہیں کرتے
سیاسی لوگ سنبھل کر چھری چلاتے ہیں
اسے بھی زیست کا اک سانحہ کہیں راقمؔ
کہ آج اندھے ہمیں راستہ دکھاتے ہیں
عمران راقم
موبائل نمبر؛9062102672
سنواریں ہم اپنا مقدر کہاں تلک
ہم ہیں برباد زمین سے آسماں تلک
گزرنا ہے اور کتنے مرحلوں سے
پہنچنے میں آدمی کو انساں تلک
رکھی ہے دِل میں چھپا کے بات
ابھی لائی نہیں ہے زباں تلک
ہے صحرا صحرا ذکرِ گُل و بُلبل
محدود نہیں اب ہے گُلستاں تلک
صورتؔ گُم ہوجائیںگی خلائوں میں
صدائیں اپنی جائیں گی کہاں تلک
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
کرب کے نشان طرب میں عیاں نہ کر
رنگون کو دیکھ دَشت کا بیاں نہ کر
اِنتشار چھوڑ کے راہِ منزل کو ڈھونڈ
یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں نہ کر
اوڑھ کے خلعتِ طرب بھی نکلو کبھی
غم کے پردے میں خود کو نہاں نہ کر
دل مچل جائے نہ رقصِ غم پہ عندلیب
میری تحویل میں آہ و فغاں نہ کر
کہتی ہے نادیہؔ ہمراز میری تنہائی
اِفشاء میرے رازوں کا تو پیماں نہ کر
نادیہ حسین
سونہ گام، کولگام