تیری آنکھوں میں ہے چاہت کا سمندر پُر سکوں
اب تلک دیکھا نہیں ہے ایسا منظر پُر سکوں
شہر کے صیّاد سارے مر گئے ، جب یہ سُنا
تب کہیں کھڑکی پہ بیٹھا ہے کبوتر پُر سکوں
نام پر دیوانگی کے جو مچلتا تھا کبھی
میرے سر کو چوٹ پہنچا کر ہے پتھّر پُر سکوں
رات بھر یادوں میں تیری کروٹیں لیتا رہا
صبح کو تھا سلوٹوں سے سارا بستر پُر سکوں
بھاگتا تھا شہر سے میں مضطرب چہرہ لئے
تھا مگر آئینے میں عکسِ مکدّر پُر سکوں
تیری آہٹ نے معطّر کر دیئے دیوار و در
آج لگتا ہے کسی حد تک مِرا گھر پٗر سکوں
جِس کو چھوڑے ایک مدّت ہو گئی مانوسؔ کو
جانے کیوں اُس راستے سے ہے گزر کر پُر سکوں
پرویز مانوس
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142
بُجھ گئےسب چراغ آندھی میں
منتشر ہے دماغ آندھی میں
ایک بھی گل نہیں سلامت اب
ایسے اُجڑا ہے باغ آندھی میں
کس طرح آشیاں بچاتے ہم
کچھ ملانہ سراغ آندھی میں
اُڑگئے رنگ تھے پتنگ میں جتنے
خود نمائی کے داغ آندھی میں
گھونسلہ چھوڑ کر مرے چھت پر
پر سکھاتے تھے زاغ آندھی میں
چشمِ نم جو ترے کرم سے ہی
بن گئے ہیں ایاغ آندھی میں
روشنی سے جنہیں بغاوت ہے
کیا جلائیں چراغ آندھی میں
کچھ فرشتے سوار تھے شاید
یوں نہ ڈوبی الاغ آندھی میں
آگ جنگل میں کس طرح پھیلی
ہیں پریشاں کلاغ آندھی میں
خط کےاوپرہی لکھ دیاقطمیر
نامئہ دل بلاغ آندھی میں
اس کو اب ڈھونڈ ئے کہاں راقم ؔ
کھو گئے جو فراغ آندھی میں
عمران راقمؔ
موبائل نمبر9062102672
مجھ پر رموزِ شوق کو اب آشکار کر
مرغِ ہوا کو دام سے یوں رستگار کر
یارب ہمارے سوختہ نخلِ مراد کو
ابرِ کرم کی دھار سے تو شاخسار کر
شوقِ لقا کے خفتہ و افسردہ جذب کو
برقِ نگہ کی تاب سے پھر شعلہ بار کر
فرسودہ رسم و راہ کی دہلیز لانگ کر
اپنے بدن سے میرا بدن مشکبار کر
بیباک میرے نار کی خندق میں کُود جا
گر یہ نہ ہوسکے تو میرا انتظار کر
دوزخ سا درد ناک ہے انجامِ آرزو
اے یارِ خوش گمان میرا اعتبار کر
سبزار احمد
یارخوشی پورہ قاضی گنڈ اننت ناگ
موبائل نمبر؛6005106285
تو مجھ سے اتنا پیار کر
یہ زندگی نثار کر
یہ عشق مجھ سے ہے تجھے
یہی تُو آشکار کر
دیوانہ دل ہے یہ مرا
ہم ہی پہ اعتبار کر
دئے جو تیرے ہجر نے
وہ زخم تو شمار کر
یوں کر کے پردہ طلحہؔ سے
نہ دل یوں بے قرار کر
جنید رشید راتھر (طلحہ )
آونورہ شوپیان کشمیر
[email protected]
ہر شجر اک آئینہ ہے موسمِ برسات میں
رنگِ گُل نکھرا ہوا ہے موسمِ برسات میں
درد کے رشتوں کا بھی کوئی مسیحا آئے گا
پھول زخموں کا کِھلا ہے موسم برسات میں
قافلے والو یہی صحرا ہے منزل کے عوض
اَبر اب نا آشنا ہے موسم برسات میں
روح کے زخموں کی قیمت اب ادا ہو خون ہے
پیرہن بھی جل رہاہے موسم برسات میں
بھیگے تنکے کی طرح دیکھے تماشااے سعیدؔ
یہ تیری مٹی کی کٹیا موسمِ برسات میں
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380
وقت کہاں،چال بدلتا ہے
اِنسان کا حال بدلتا ہے
جیون تو یہ ختم نہیں ہوتا
صرف خدوخال بدلتا ہے
نیچے کو بہتا ہے پانی
رستہ کو مجال بدلتا ہے
گِرتے ہیں زرد پتّے اکثر
پنچھی بھی ڈال بدلتا ہے
نیت میں ہو کھوٹ منیؔ
تو پھر سُر تال بدلتا ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
بھدرواہ، جموں
موبائل نمبر؛9906397577
رخصت کی جانب دیکھ یہ موسم بہار کا ہے
رنگ کس طرح سے بدلا ہر اک دیار کا ہے
رندھی ہیں بستیاں سب ہر سُونظر تو ڈالو
یہ کام تُوبتا دے کس شہ سوار کا ہے
امن و اماں تو قائم ہوگاضرور لیکن
فکر و گماں کا عالم سب انتظار کا ہے
بوٹا لگا لیا تھا اک سنترے کامیں نے
پھل آگیا ہے اسمیں لیکن انار کاہے
مالی سنبھالو گلشن اُجڑا ہے ہر طرف سے
تم پر تو ہر طرف سے سایہ بہار کا ہے
فاروق احمد قادریؔ
کوٹی ڈوڈہ، جموں
نیو وے کمپیوٹرس ڈوڈہ