ڈوبی ہوئی کشتی کا پتوار کہاں ہوگا
جب گھر ہی نہ ہو اپنا،سنسار کہاں ہوگا
روٹی کےہی چکرسےفُرصت نہ کبھی پائے
مزدور ہے بے چارہ بیمار کہاں ہوگا
تحریرِ جلّی جسکی پیغامِ محبت ہو
اس شہر میں اک ایسا اخبار کہاں ہوگا
اس دورکے انساں کوعقبیٰ سے نہیں مطلب
اِس خُوگرِ دنیا کا کردار کہاں ہوگا
ہے فرقہ پرستوں کا ہر کام سمِ قاتل
ان جیسا زمانے میں شہ مار کہاں ہوگا
بس تیری عنایت سے ہم کام کے ہیں ورنہ
بیکار سے ہاتھوں سے شہکار کہاں ہوگا
اک حبس کے عالم میں زندہ رہا میں بسملؔ
اب دیکھتا ہوں غم کا اظہار کہاں ہوگا
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری
موبائل نمبر؛9086395995
فلک سے تو بھی کبھی بندے کو اشارا کر
کیا ہے شوق سے سجدہ ادا گوارا کر
ہجومِ نور ہے تیرے ہی دسترس میں خدا
بُجھے بُجھے سے دئے کو مرے ستارا کر
یہ تیرگی کا ہے دشمن یہ روشنی کا حبیب
اُلجھ رہا ہے ہوا سے دِیا نظارا کر
حصارِ وصل میں اور احتیاط کرنا ہے
کنارِ قرب پہ جذبات سے کنارا کر
کھڑے سوال کئے ہیں بہت سوالوں پر
کبھی ہمارے گماں پر بھی حل اُتارا کر
تو اپنے حسن کو اور پُرکشش بنا دلبر
قدم اٹھا کبھی میرا جنوں نکھارا کر
یہ کیا کہ شام ہوئی در پہ غیر کے عادل ؔ
کبھی ہمارے بھی آنگن میں دن گزارا کر
اشرف عادل ؔ
سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛ 9906540315
پھر کوئی زخم نیا دل پہ لگانے آئے
“مجھ سے ملنے مرے احباب پرانے آئے ”
راہِ ہستی میں بکھیرے تھے جنہوں نے کانٹے
وہ مری قبر پہ اب پھول چڑھانے آئے
فن کو میرے کبھی یاروں نے سراہا ہی نہیں
جب بھی آئے وہ مرے عیب دکھانے آئے
تھی مرے پاؤں میں زنجیر وفاداری کی
ورنہ راہوں میں مری کتنے خزانے آئے
لاش رکھی ہوئی ہے کب سے چتا پر یارو
جا کے بیٹے سے کہو ،آگ لگائے آئے
غم وہ تنہا نہ اُٹھا پائے گا اس سے کہہ دو
اپنے آنسو ،مری پلکوں پہ سجانے آئے
چاندنی رات میں بچھڑا تھا کوئی ہم سے رفیقؔ
چاند نکلا تو کئی یاد فسانے آئے
رفیقؔ عثمانی
آکولہ،مہاراشٹرا
[email protected]
آغازِ محبت میں اپنا انجام دیکھتا هوں
هو رسوائیوں کا ڈر سرِ عام دیکھتا هوں
رشتوں کی نزاکت پائمال هو گئی کیوں
اب خاطر و دُعا نه سلام دیکھتا هوں
کانٹا سا چبھ رہا دل کی خلش بڑھی ہے
غیروں سے جب ان کو ہم کلام دیکھتا ہوں
نوید بهار کی هو ، آمدِ یار بھی هو
مسکُراتی کلیوں کا جب پیغام دیکھتا هوں
تمهیں کیا پته که اکثر میری زندگی میں آکر
خوشی عارضی رهی هے غم کو دوام دیکھتا هوں
شاید که رنگ لائیں اک دن میری وفائیں
دل مُضطرب کے مشتاقؔ جب یه کام دیکھتا هوں
خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو (اننت ناگ)
[email protected]
دیوتائوں کو پَھٹے دامن میں بھر کر لے گیا
ایک دیوانہ ترے کُوچے کے پتھر لے گیا
دِن دہاڑے کاٹ کر قاتل میرا سر لے گیا
اور منصف کہتے ہیں اپنا مقدر لے گئے
آج پھر متقل میں کوئی آگیا عزت مآب
آج پھر جلّاد اِک سونے کا خنجر لے گیا
حاکموں کی خواب گاہوں کو سجانے کے لئے
ایک سوداگر کسی معصوم کا سر لے گیا
اے سُبک بادِ صبا گر تُو نہیں تو اور کون
چیتھڑے میرے اُڑا کر آج گھر گھر لے گیا
بارہا غیرت نے روکا عقل نے ٹوکا مجھے
دِل ہمیں مجبور کر کے تیرے در پر لے گیا
شرم آنکھوں کی بدن کا لوچ اور ہونٹوں کا رس
زرکے بدلے میں وہ کیسے کیسے زیور لے گیا
حکم ہے پنچھیؔ کے دونوں ہاتھ پائوں کاٹ دو
کیوں یہ راہِ عام کے سب خار چُن کر لے گیا
سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668
میں بدن جس کے لیے آگ پہ رکھ کر آیا
اک وہی شخص عیادت کو نہ پل بھر آیا
دستِ دل کھول کے جب آپ کے در پر آیا
نور برجستہ نگاہوں میں سمٹ کر آیا
میں دعاؤں کے سہارے پہ چلا جب گھر سے
راہ دِکھلانے کبھی پیڑ تو کنکر آیا
لوٹ آنے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن
وقتِ رخصت کیوں مرا نام زباں پر آیا
موت کے بعد فقط ذکرِ خدا باقی تھا
مال و زر کام نہ شہرت نہ ذرا گھر آیا
یہ الگ بات ہوئے خاک اسی کے ہاتھوں
پھول کے ہار میں جس شخص کو دے کر آیا
شہر سے ان کے نہ لوٹا ہوں تہی میں عارف ؔ
ہاتھ میں لے کے تو الزام کے پتھر آیا
جاوید عارفؔ
پہانو شوپیان،کشمیر،موبائل نمبر؛7006800298
باؤلے دل کا حال کیا ہوتا
گاہ گر اُن کا سامنا ہوتا
کوئی منزل یا راستہ ہوتا
کہیں تو تیرا نقشِ پا ہوتا
وہ مری چُپ کو گِلہ ہی سمجھا
بھلا مجھ کو کیا گِلہ ہوتا
آگہی نے تو مار ڈالا ہے
ہوتا گر بے خبر تو کیا ہوتا
دُکھ نہ تھا ہجر کاٹنے میں ہاں
وہ خوشی سے اگر جدا ہوتا
دور ہوتے ہی جاں نکلتی تو
پھر جدا ہوتا تو کیا ہوتا
وہ صنمِ جاں فزا وہ کیف آور
خواب میں ہی کہیں ملا ہوتا
تو کیا ہوتا اور میں کیا ہوتا
تیرا وعدہ اگر وفا ہوتا
توصیف شہریار
سریگفوارہ اسلام آباد
موبائل نمبر؛7780895105
میں تیرا، جان! ہونا چاہتا ہوں
تری یادوں میں کھونا چاہتا ہوں
تجھے میں یاد کر کے تھک چکا ہوں
سو تجھ کو یاد آنا چاہتا ہوں
پلایا خوب مجھ کو جامِ الفت
میں اب مدہوش ہونا چاہتا ہوں
بہت مُسکا لیا میں نے، لہذا
ذرا آنسو بہانا چاہتا ہوں
اور عزت بھی بہت میں نے کمالی
میں اب شرمندہ ہونا چاہتا ہوں
وہ جس کا جام فیضیؔ دل کو بھایا
ہے ، اس سے چہرا دھونا چاہتا ہوں
فیضان فیضیؔ
دار الہدیٰ پنگنور، آندھرا پردیش
کیوں ملی ہے سزا نہیں معلوم
مجھ کو اپنی خطا نہیں معلوم
میں سمجھتا تھا باوفا جس کو
کیوں ہوا بے وفا نہیں معلوم
مسکراہٹ ہے سب کے چہرے پر
کون رسوا ہوا نہیں معلوم
ماں کے قدموں کو گر نہیں چوما
تم کو، جنت ہے کیا، نہیں معلوم
باغ میں آج ایک تتلی نے
پھول سے کیا کہا نہیں معلوم
ہو گیا ہے مریضِ عشق احمدؔ
کیا ہے اس کی دوا نہیں معلوم
احمدؔ ارسلان
کشتواڑ، جموں و کشمیر
موبائل نمبر؛7006882029