اپنی نظروں میں بے نقاب ہوئے
	ہم اسی واسطے خراب ہوئے
	کیا اندھیرا ہی رات ہوتا ہے
	نیند آئی نہ کوئی خواب ہوئے
	ہم انہیں یوں سجائے رہتے ہیں
	زخم جیسے کھلے گلاب ہوئے
	زندگی کیسے جرم کی ہے سزا
	کن سوالوں کا ہم جواب ہوئے
	مہربانی بھی کچھ رہی اس کی
	ظلم بھی ہم پہ بے حساب ہوئے
	آج کل رات بھی ہے دن جیسی
	اب ستارے بھی آفتاب ہوئے
	ہر کسی سے تعلقات ترے
	ہر کسی کے لیے عذاب ہوئے
	ایک دن لا پتہ ہوا بلراجؔ
	ایک دن لوگ کامیاب ہوئے
	بلراجؔ بخشی
	۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر) Mob: 09419339303
	email: [email protected] 
	جب کسی مْفلس کو کھنڈر میں خزانہ مل گیا 
	اقرباء سے دُور ہونے کا بہانہ مل گیا
	پوری بستی میں فقط کچا تھا میرا ہی مکاں 
	جس کی چھت میں اک پرندے کو ٹھکانہ مل گیا
	میرے بچوں نے کباڑی کو جو دینا چاہی تھی 
	مجھ کو اْس ردی میں تیرا خط پْرانا مل گیا
	کھیلتے مٹی سے  پوتا دیکھ کر دادا کو بھی 
	ایک ہی لمحے میں بچپن کا زمانہ مل گیا
	عزم سے نکلا جو اپنے گھونسلے کو چھوڑ کر 
	بس اْسی پنچھی کو اس دھرتی پہ دانہ مل گیا
	تشنگی سے مار ہی دیتا مجھے ظالم سراب 
	شْکر ہے صحرا میں اک کوّا سیانا مل گیا
	آنکھ والے ڈھونڈھ پائے تھے نہ جس کو عمر بھر
	زندگی کا کور چشموں کو نشانہ مل گیا
	لفظ کا احسان کیا لیتی زباں اچھا ہوا 
	اک لبِ خاموش میں سارا فسانہ مل گیا
	لذتِ رزقِ خْدا اْس پر ہوئی تب آشکار 
	ایک بھوکے شخص کو جس وقت کھانا مل گیا
	پرویز مانوسؔ
	نٹی پورہ سرینگر ،9419463487
	جب سے مرے رقیب کا رستہ بدل گیا 
	تب سے مرے نصیب کا نقشہ بدل گیا
	شریں تھا کتنا اس کا  وہ اندازِ گفتگو 
	دو چار سکے آئے تو  لہجہ بدل گیا 
	کس کی زباں کھلے، ہو کس سے خبر مجھے
	کیوں کر مرے حریف کا چہرہ بدل گیا
	شرم و حیا بھی اپنی یہ  نیلام کر گیا
	انسان اس زمانے کا کتنا بدل گیا
	اْن کے بدلنے کا کوئی دکھ ہی نہیں مجھے
	افسوس میرا اپنا ہی سایہ بدل گیا
	جب سے بڑوں کی گھر سے حکومت چلی گئی
	جنت  نما مکان کا   نقشہ بدل گیا
	راہوں کی خاک چھانی بہت اس مقام تک 
	"رہبر بدل گیا کبھی رستہ بدل گیا"
	کہتا ہے اس کے جانے سے کچھ بھی نہیں ہوا
	مہتابؔ تیرے دل کی جو دنیا بدل گیا
	بشیر مہتابؔ
	رابطہ؛رام بن ،9596955023
	کسی بچپن کے خواب کا سا ہے
	  روپ تیرا گْلاب کا سا ہے
	عْمر گزری ہے تیرے کوچے میں
	 بس نتیجہ سراب کا سا ہے
	زندگی کی خموش راہوں میں
	حالِ دل انقلاب کا سا ہے
	میرا تیرا وجود محفل میں
	بر زمیں آفتاب کا سا ہے
	گر تْجھے جھوٹ سے کروں حاصل
	 وہ گناہ بھی ثواب کا سا ہے
	ذکر تیرا بہار کی آمد
	شور ہر سو خطاب کا سا ہے
	جام کی اب کِسے ضرورت ہے
	آج موسم شراب کا سا ہے
	موجؔتیرے اْداس چہرے پر
	کوئی قِصّہ کتاب کا سا ہے
	پردیپ سنگھ موجؔ 
	ڈوڑہ، لیکچرر اردوگورنمنٹ ہائیر سکنڈری سکول گواڑی
	موبائل نمبر؛9697910823
	دل سوختہ تھا اپنا یہی حسب حال تھا
	جیتے جی خوش کہاں تھے کہ جینا محال تھا
	ـــــــــــکرنے گئے تھے ان سے تغافل کا ہم گلہ
	لیکن انہیں بھی ہم سے عجب سا ملال تھا 
	ہر اک ادا تھی پیاری کہ جاں سے عزیزتھی
	پر جو ستم کیا تھا وہ جاںپروبال تھا
	تقدیر اپنی بدلی نہ ان پر اثر ہوا 
	ہم نے سناہے لوگو ں سے اچھا یہ سال تھا
	وہ کیا سے کیا ہوئے ہیں مگر یاد آتے ہیں 
	وہ دن کہ جب انہیں بھی میرا خیال تھا 
	یہ سب شفق کا فیض ہے راشکؔ کہ مجھ میں یوں
	پہلے کبھی نہ ایسا یہ مجھ میں کمال تھا 
	راشکؔ اعظمی 
	طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی 
	فون  نمبر ـ 796377969
	جب کہیں ذکرِ یار ہوتا ہے
	میرا دل بے قرار ہوتا ہے
	تیری اُس برہمی پہ ہر لمحہ
	خاکِ پا حال زار ہوتا ہے
	ہم بھی مٹ جائینگے کسی پل میں
	کون یاں پائیدار ہوتا ہے
	آ دمی یوں اجل سے نالاں ہے
	زندگی کا شکار ہوتا ہے
	حسن کے ایک ہم نہیں مائل
	حسن رشکِ بہار ہوتا ہے
	مُجھ سے حق گوئی کا نہ وعدہ لے
	یہ گُزر سوئے دار ہوتا ہیں
	یہ جنوں جس قدر چھُپاتا ہوں
	اُس قدر آشکار ہوتا ہے
	ہم کبھی منتظر نہیں ہوتے
	خود پہ کب اختیار ہوتا ہے
	وہ نہ آئے ، نہ آسکے، پھر بھی
	ہر گھڑی انتظار ہوتا ہے
	دورِ ہجراں ہے کب تلک واجدؔ
	اب بسر نا گوار ہوتا ہے 
	واجدؔ عباس
	نوگام  سوناواری،7006566516