کیاجانے کیسے جال بچھاجاتی ہیں نظریں 
	جب جب بھی میرے پاس کبھی آتی ہیں نظریں
	ہوجاتی ہیں نشتر کی طرح جذب وہ اس میں 
	کیاکیا نہ ستِم دِل پہ میرے ڈھاتی ہیں نظریں 
	میں کہنا بھی چاہوں تو کبھی کہہ نہیں سکتا
	اب کیسے کہوں کِتنا رُلا جاتی ہیں نظریں
	یہ جان وجگرکرتاہوں میں اُن پہ نچھاور 
	انکارنہیں مجھ کوکبھی بھاتی ہیں نظریں 
	ہم زندگی میں شام وسحرساتھ رہے ہیں 
	افسانے کئی یاددِلا جاتی ہیں نظریں 
	پھرنیند نہیں آتی کسِی طور بھی مُجھ کو
	راتوں کومجھے ایسے جگاجاتی ہیں نظریں 
	میں پھربھی ہتاشؔ اِس کی شکایت نہیں کرتا
	میرے لیے بے چینیاں بھی لاتی ہیںنظریں
	پیارے ہتاشؔ
	جموں،رابطہ نمبر:8493853607
	غُبارِ راہ بنکر آسماں بن
	جہاں کیا چیز ہے تو لا مکاں بن
	ہے غیرت کا اِشارہ ہر بشر کو
	تو سب سے پہلے اپنا امتحاں بن
	محبت نام ہے خُوئے وفا کا
	کسی کا بھی نہ تو نا مہرباں بن
	صبا بنکر جگا مردہ دلوں کو
	زباں جنکی نہیں اُنکی زباں بن
	ہر اِک گوشے میں پہنچے نور تیرا
	ستارہ بن شریکِ کہکشاں بن
	تمہاری رہبری کا فیض پھیلے
	مثالِ خضر عمرِ جاوداں بن
	مثالِ شمع جل خاموش رہ کر
	پگھل ہادیؔ مگر سوزِ نہاں بن
	حیدر علی ہادیؔ 
	زیارت بتہ مالنہ سرینگر 
	موبائل نمبر؛8803032970
	میرا نہیں رہا تُو، میں تیرا نہیں رہا 
	ایفائے وعدہ کو کوئی وعدہ نہیں رہا
	اشکوں سے کیسے درد کو ظاہر کرینگے ہم
	آنکھوں میں اب تو ایک بھی قطرہ نہیں رہا
	پہلے تو ہوتا تھا مرا چرچا گلی گلی 
	شاید یہ شہرِ غیر ہے چرچا نہیں رہا
	ارمان پورے ہو کے بھی جذبات رہ گئے 
	کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
	اک بار میرے چاکِ گریباں پہ کر نظر
	تیرا  تو  در  کنار  میں اپنا نہیں رہا 
	 اب مت پکار اُس کو دلِ بے قرار تو
	کر لے مرا  یقین  وہ  تیرا  نہیں  رہا 
	کیاجا نے کیو ں انہیں بھی کھٹکنے لگا ہوں میں
	کیوں اُن کے گھر میں میرا بسیرا نہیں رہا
	ان کی نگاہِ ناز کا یہ بھی ہے  ایک رنگ
	جیسامیں پہلے رہتا تھا ویسا نہیں رہا
	بشیر ـمہتابؔ 
	رام بن ، موبائل نمبر؛9596955023      
	تیرے در کے سوا کدھر جائیں 
	ہم کبھی بھی نہ اب بکھر جائیں
	اب ادھر جائیں یا ادھر جائیں 
	بول اے راہی ہم کدھر جائیں
	صورت ایسی بنا لوں جس سے وہ 
	دیکھتے دیکھتے سنور جائیں
	جس نے بخشی ہے زندگی ہم کو 
	کیوں نہ ہم لوگ اس سے ڈر جائیں
	میر کی شاعری نے پاگل کیا 
	کیسے اب زخم دل کے بھر جائیں
	پھرتا ہوں بچپنے سے گلیوں میں
	دل میں کچھ خاص ہی اتر جائیں
	بس تو کرتا ہے یہ دعا بسملؔ 
	کاش طیبہ کو جائیں، مر جائیں
	سید بسمل مرتضٰی
	پیر محلہ شانگس اننت ناگ 
	طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس 
	موبائل نمبر؛9596411285 
	گلشنِ زیست میں وہ سکوں ہے کہاں
	یار کے بھی پیار میں وہ جنوں ہے کہاں
	بٹ گیا ہے وجود آدمی کا دیکھ لے 
	دوڑتا اب رگوں میں وہ خوں ہے کہاں
	حال وہ پوچھتے بھی اگر ہیں میرا
	اُن کے لہجے میں وہ اندروں ہے کہاں
	جس کو ارماں کبھی جاگتے تھے دیکھ کر
	اب بہاروں میں ایسا سکوں ہے کہاں
	اب سکینہؔ کی باتیں سُنے کون یاں
	اس زمانے میں خیر القروں ہے کہاں
	     سکینہؔ اختر