ظفر محی الدین
دنیا کی معیشت ہر بار اُتار چڑھائو اور مندی بلندی کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔چندسال قبل کی عالمی بینک، آئی ایم ایف اور آئوٹ لک ڈیٹا بیس کی مدد سے درج رپورٹس کے ایک طرف جہاں دنیا کی دس بڑی معیشتوں اور طاقتوں میں امریکاسرِ فہرست ہے، چین دوسرے، جاپان تیسرے، جرمنی چوتھے، برطانیہ پانچویں، بھارت چھٹے، فرانس ساتویں، اٹلی آٹھویں، برازیل نویں اور کینیڈا دسویں نمبر پر ہے۔ وہیںدوسری طرف دنیا کے ان غریب ترین ممالک کے بارے میں بھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں جو یورپی نوآبادیات ،جہالت ،نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بدولت ،غربت اورپسماندگی کا شکار ہیں ۔ذیل میں کچھ غریب اور پسماندہ ممالک کا تذکرہ نذرِقارئین ہے۔
جمہوریہ سینٹرل افریقہ :یہ غریب اور پسماندہ ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جس کی آبادی پچاس لاکھ سے زائد اور یہ ساٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پھیلا ہوا ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی چھ سو ساٹھ ڈالر ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں فرانس سے آزادی کے بعد یہ ملک جمہوری سینٹرل افریقہ کہلایا،مگر نوآبادیات دور میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ملک کی معیشت ابتری کا شکاررہی ،جس کی وجہ سے ملک میں قبائلی، نسلی اور لسانی فسادات اور تنازعات کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنی امن فوج کے دستے یہاں تعینات کئے اور فسادات پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کی۔ اقوام متحدہ اور بڑی غیرسرکاری فلاحی تنظیموں کی مدد سے یہاں اسپتال، اسکول اور کالج قائم کئے گئے۔ اب جمہوریہ سینٹرل افریقہ میں خواندگی کی شرح پچاس فیصد ہے بڑی حد تک علاج معالجہ کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔
عوامی جمہوریہ کانگو : رقبہ کے لحاظ سے یہ افریقہ کا دوسرا اور دنیا کا گیارہواں ملک ہے۔ آبادی نو کروڑ سے زائد ہے۔ انیسویں صدی میں بیلجیم نے اس پر اپنا پرچم لہرا کر اس خطے کو اپنی نوآبادیات کا حصہ بنالیا۔ نو آباد کاروں نے اس خطے کے تمام قدرتی وسائل پر قبضہ کرکے عوام سے غلاموں کی طرح کام لیا۔ 1960ء میں کانگو کو آزادی نصیب ہوئی، جس میں پیٹرک لوممبا کی پارٹی موومنٹ آف کانگو پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلے انتخابات میں لوممبا وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر ان کے اشتراکی نظریات کی وجہ سے سی آئی اے اور بیلجیم کے حکام نے ہلاک کردیا۔ کانگو ایک بار پھر نوآبادیاتی دور کی طرح لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ نسلی فسادات، قبائلی تنازعات، آبادی میں بے تحاشا اضافے نے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال بنادیا۔ سالانہ فی کس آمدنی ایک ہزار ڈالر سے کچھ کم ہے۔ کانگو دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں اوپر ہے، ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔
برونڈی :غریب ترین ممالک میں برونڈی نمایاں ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی آٹھ سو بیس ڈالر ہے۔ ساٹھ فیصد سے زائد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کا معیار پست ہے۔ خواندگی کی شرح بتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ صحت عامہ اور فلاح و بہبود کے اداروں کا فقدان ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فلاحی تنظیمیں خوراک، دوائیں اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں مگر قبائلی تنازعات اور شدت پسندی کا زور کم نہیں ہوا ہے۔ فوجی آمریت اور قبائلی سرداروں کا ٹکرائو ہے۔ غیرمستحکم اور خراب حکمرانی نے عوام کی زندگی مزید اجیرن کر رکھی ہے۔
لائبیریا :جمہوریہ لائبیریا مغربی افریقا میں واقع ہے۔ ملک کی آبادی پچاس لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں ربر کی پیداوار بہت ہوتی ہے۔ موسمی تغیرات، جنگلات کی کٹائی اور آلودگی نے زراعت کوشدید نقصان پہنچایا ہے۔ ربر کی پیداوار بہت کم رہ گئی ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی نوسو ڈالرہے اور نصف سے زائد آبادی غربت اور پسماندگی کا شکار ہے، دیگر افریقی ممالک کی طرح کرپشن اور نسلی فسادات نے عوام کی زندگی عذاب بنادی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ہزاروں مقامی باشندوں کو امریکی اور پرتگیزی اغوا کرکے غلام بنا کر لے گئے اور انسانی منڈیوں میں فروخت کردیا۔ اس حوالے سے لائبیریا میں بھی نسلی تعصب عام ہے۔ خواندگی کی شرح اڑتالیس فیصد کے قریب ہے۔
جمہوریہ نائجر:جمہوریہ نائجر افریقا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ اور فی کس سالانہ آمدنی 1115 ڈالر ہے۔نائجر میں یورینیم کے بڑے ذخائر ہیں مگر نوآبادیاتی دور کے چھوڑے ہوئے منفی اثرات، نسلی تعصب، غربت، ناانصافی اور خانہ جنگی نے عوام کو مزید غبرت اور پسماندگی میں دھکیل دیا ہے۔ ان خطوں میں چین نے سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یورینیم برآمد کررہا ہے مگر اس کے باوجود عوام کی پسماندگی اپنی جگہ موجود ہے۔ بے روزگاری، بے امنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہتا ہے اس پر خشک سالی اور بیماریوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ آبادی کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، مگر خشک سالی اور موسمی تغیرات نے بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ نائجر میں اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ خوراک اور علاج معالجہ کی سہولتوں میں شدید کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
ملاوی/ مالی :جمہوریہ ملاوی یا مالی جنوب مشرق افریقا کا چھوٹا ملک ہے ۔آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ غریب ترین ممالک میں شمارہوتا ہے،آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی گیارہ سو اسی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آبادی میں اضافہ، وسائل اور تعلیم کی کمی سماجی پستی کا سبب ہیں۔ خوراک اور صحت عامہ کی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کا اوسط زیادہ ہے۔ ملاوی کی حکومت بیرونی امداد سے تعلیم، صحت عامہ اور انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ملاوی دیگرترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی طرح مختلف سماجی برائیوں اور کرپشن کا شکار ہے کم سن بچوں کی شادیاں، انسانی اسمگلنگ اور رشوت ستانی عام ہے۔ جرائم کا اوسط بھی زیادہ ہے۔ پچاس فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جہاں جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔ زرعی پیداوار میں آلو، تمباکو، گنا، کپاس، چائے اور سورگم کی کاشت نمایاں ہیں۔ پرائمری کی تعلیم لازمی اور مفت ہے۔ جس میں اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی تنظیمیں امداد دیتی ہیں۔
گنی : براعظم افریقہ کے مغربی حصے میں واقع گنی کی آبادی سوا کروڑ سے کچھ زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح 40فیصد ہے، جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 1270 ڈالرکے لگ بھگ ہے۔ گنی باوجود اس کے کہ ایلومینیم پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کے پاس قیمتی معدنیات وافر ذخائر میں دریافت ہوچکے ہیں پھر بھی غریب ترین ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ غربت، پسماندگی اور کرپشن کی بڑی وجہ یہ ہے کہ، انیسویں صدی میں فرانس نے اس پر قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیاتھا، جس کے بعد لوٹ کھسوٹ ظلم و جبر کا بازار گرم ہوا۔ ہزاروں کاشت کاروں کو جبراً اغوا کرکے انہیں انسانی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا رہا۔ آج بھی آبادی کی اکثریت زراعت پر گزارا کرتی ہے۔ ملک میں بدامنی، قبائلی تنازعات اور کرپشن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
مڈغا سکر :مڈغا سکر کا پہلے نام ملاگاسی تھا بحر ہند میں واقع یہ حسین ترین جزیرہ دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ انیسویں صدی میں فرانس نے اس جزیرہ پر بھی قبضہ کرکے اپنی نوآبادیات میں شامل کرلیا تھا۔ 1960ء میں اس کو آزادی نصیب ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فہرست کے مطابق یہ ملک دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میںساتویں نمبر پر ہے۔ آبادی سوا دو کروڑ اور رقبہ چھ لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے۔ سالانہ فی کس آمدنی سولہ سو ستر ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرت نے اس جزیرے کو حیاتیات اور نباتیات کا خزانہ بخشا ہے۔ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے اکثریت کا گزارا زراعت، ماہی گیری اور جنگلات کی کٹائی پر ہے۔ زرعی پیداوار میں چاول، کافی، پام آئل، سلک اور جانوروں کی افزائش نسل ہے۔ ستر فیصد آبادی غربت اورپسماندگی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر غیرسرکاری اداروں نے 2004ء میں مالی امداد دے کر مڈغاسکر کی معیشت کو جو صفر ہوچکی تھی پھر سہارا دیا۔ امریکی بزنس کونسل کی امداد سے انفرا اسٹرکچر، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کو فروغ کا عمل جاری ہے۔
وفاقی جمہوری عوامی ایتھوپیا :ایتھوپیا کی شمال اور شمالی مغربی سرحد جبوتی،صومالیہ سے سوڈان اور جنوبی سرزمین مغرب سے اور جنوب میں کینیا سے ملتی ہے ۔ آبادی دس کروڑ سے زائد ، جبکہ گیارہ لاکھ سے کچھ زائد مربع کلو میٹر علاقے پر مشتمل ہے۔ معیشت میں بہتری ہونے کے اقدامات کے باوجود ایتھوپیا فی کس سالانہ آمدنی کی فہرست میں نچلے پسماندہ ممالک میں شمار ہورہا ہے۔ آبادی میں اضافے کے اوسط کے لحاظ سے دنیا کے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اس ملک میں یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد ہیں۔صحت عامہ، تعلیم کے شعبے قدرے بہتر ہیں، تعلیم کا اوسط پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔سالانہ فی کس آمدنی دوہزارڈالر سے کم ہے۔ قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود یہ استحصال کا شکار ملک ہے۔
موزمبیق : براعظم افریقہ کا یہ غریب ترین ملک جس کو اٹھارہویں صدی میں موزمبیق کا نام دیا گیا جنوب مشرقی افریقا میں بحر ہند کے ساحلوں پر واقع ہے،اس کا رقبہ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تین کروڑ پچانوے لاکھ کے قریب ہے۔ 1496میں پرتگیزی جہازوں واسکو ڈی گمانے یہ خطہ دریافت کیاتھا تب سے بیسویں صدی تک یہاں پرتگیزوں کی حکمرانی رہی اور موزمبیق خطے کی دیگر پرتگیزی کالونیوں میں شمار کیا
جانے لگا۔ ملک کی فی کس آمدنی1290ڈالر ہے، جبکہ عام شہری ایک سے دوڈالر روزانہ پراپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ہرچند کہ موزمبیق قدرتی وسائل سے مالامال ہے ،مگر ان وسائل کا سارا فائدہ جنوبی افریقا، پرتگال، اسپین اور بیچلم کے ملٹی نیشنل ادارے حاصل کررہے ہیں۔ عوام غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور بیماریوں سے نڈھال ہیں۔