دور کر دے یا وہ دل میں بسا لے مجھ کو
اس سے کہہ دو کہ تذبذب سے نکالے مجھ کو
زیست بخشی ہے تو جینے کا سلیقہ بھی تو دے
ورنہ بہتر ہے کہ دنیا سے اُٹھا لے مجھ کو
عین ممکن ہے کہ طوفاں کا بہانہ نہ بنے
عین ممکن ہے مری چپ ہی بہا لے مجھ کو
ہار جانے کی محبت میں اگر بات چلے
لوگ دیتے ہیں فقط میرے حوالے مجھ کو
جب تلک تھا تجھے پانے کا بھروسہ قائم
تب اندھیروں میں بھی دِکھتے تھے اُجالے مجھ کو
اُس پہ لازم ہے کہ روتے کو ہنسائے ممتازؔ
اُس پہ لازم ہے کہ روٹھوں تو منالے مجھ کو
ممتازؔ چودھری راجوری، جموں
[email protected]>
تم نے مجھے بُھلا دیا اچھا نہیں کیا
دل کو مرے دُکھا دیا اچھا نہیں کیا
چاہا تھا میں نے تم کو مری اتنی تھی خطا
اتنی بڑی سزا دیا اچھا نہیں کیا
دامن کو اس نے تھام لیا اک رئیس کے
مفلس کو یوں دغا دیا اچھا نہیں کیا
دیکھوں جدھر بھی آئے نظر تو ہی تو مجھے
پاگل مجھے بنا دیا اچھا نہیں کیا
پہلے نوازا تو نے مجھے خوب اے خدا
پھر خاک میں ملا دیا اچھا نہیں کیا
رونے نہیں دیا کبھی تو نے مجھے اے ماں
جاتے ہوئے رُلا دیا، اچھا نہیں کیا
جسکو نہیں ہے تجھ سے لگن اس پہ اے رفیق ؔ
تو نے یہ دل لُٹا دیا اچھا نہیں کیا
رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سپر انٹنڈٹBSNL
وائے محرومی میں اپنا نارہا
سب کے ہونے بعد بھی تنہا رہا
بت کدے میں لے گئی الجھن کبھی
اور کبھی اشکوں کی مے پیتا رہا
یہ سزا ہے ابتلایا کچھ اور ہے
میں زندگانی بھر جسے سہتا رہا
غربت و افلاس کُلفت درد و غم
بس انہی اپنوں کا میں اپنا رہا
اس قدر نے تنگ تھی پہلے زمیں
آسماں بھی دور کب اتنا رہا
نے خُدا ،نےخدائے وقت نے
سن لیا جو میں صدا دیتا رہا
تیری رسوائی کا غم ہے اس لئے
تیرے شکوے خود سے ہی کرتا رہا
زخمِ دل فرقت اور خونچکاں قلم
اور منیبؔ کے پاس باقی کیا رہا
مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر، موبائل نمبر؛9906486481
یونہی ادراک کو حیرت کی حد تک چھوڑ دیتا ہے
یہاں جب آدمی جینا اچانک چھوڑ دیتا ہے
کئی بیٹوں کے ذمے پرورش تقسیم ہونے پر
پہننا ایک بوڑھا باپ عینک چھوڑ دیتا ہے
کوئی تو ہے یہ سڑکیں پار کرواتے ہوئے مجھ کو
بچا کر حادثوں سے روز گھر تک چھوڑ دیتا ہے
اسی کا ہو کے رہ جانا ہمارے دل کی فطرت ہے
حقیقت کا گماں دل پر جو ناٹک چھوڑ دیتا ہے
یہی دیکھا ہے جس لوہے میں بھی تھوڑی ملاوٹ تھی
ذرا ہلنے پہ اس لوہے کو چمبک چھوڑ دیتا ہے
تری خاطر کسی شیعہ کسی سنی سے بے پروا
ترا بندہ یوں ہی آدابِ مسلک چھوڑ دیتا ہے
حفاظت کی ضمانت جب بھی ہم نے لی وطن والو
کُھلا ہر شخص اپنے گھر کا پھاٹک چھوڑ دیتا ہے
مصداقؔ اعظمی
پھولپور، اعظم گڑھ ، یو پی
موبائل نمبر؛9451431700
عالمِ وجد کی اس رات میں ہے
بات جو صرف تری ذات میں ہے
کیوں اُلجھ کے رہا ہے تارِ نفس
کیا دمِ گُستہ مری گھات میں ہے
سر بکف نالے شبِ تار میں کر
اک بڑی بات مناجات میں ہے
باعثِ شورِشِ کونین ہوں، کیوں
کرمکِ شمع خیالات میں ہے
طائرِ قدس پڑے وجد میں یوں
جیسے کے شورِ نفس ساتھ میں ہے
اٹھ کھڑے ہو گئے ہیں لات و منات
دیں ہمہ اوست شہادات میں ہے
شیخ سرمد بھی ہے منصور بھی ہے
اور اناالحق بھی بیانات میں ہے
یاور حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
تم نہیں ہو پاس جب تو اِک سوال ہے مرا
تیرے بعد کون ہے جو ہم خیال ہے مرا
جب سے تو ہوا ہے دور دل کے شہر سے مرے
تب سے ہی تُو یار یہ شکستہ حال ہے مرا
وہ تو میرے خواب ڈال کر گیا ہے خاک میں
اب تو جینا بھی جہان میں محال ہے مرا
بن ترے میں پھر بھی جی رہا ہوں اس جہاں میں
اے بِنائے ہجر و غم یہی کمال ہے مرا
تُو کبھی تو آئے اور دیکھے میری بے بسی
تیرے اِس فراق میں برا جو حال ہے مرا
میں نے خود کو قیس دی سزا یہ خود ہی ہے مگر
اب کہوں میں کیسے تُجھ سے بھی ملال ہے مرا
کیسر خان قیس ؔ
ٹنگواری بالا بارہ مولہ ،موبائل نمبر؛6006242157
جو مکین تھے وہ بے خانماں ہوگئے
چمن میں دیکھو کتنے گل ویراں ہو گئے
بہار تو چھائی ہے چمن میں قدم قدم
کہ مگر اب کے موسم خزاں ہو گئے
پھولوں کے چمن میں دیکھ تو ذرا
رنگوں کے جلوے سنساں ہوگئے
قادری ؔجس کی وہ ملکیت تھی اُس کے
کوئی اور ہی حکمراں ہوگئے
فارق احمد قادرؔی
کوٹی ڈوڈہ جموں وکشمیر
نیو وے کمپیوٹرس ڈوڈہ
ہوا جب اُدھر کی طرف تیرا رُخ
مسوس کر دل میرا رہ گیا رُخ
کیا تھا جو سب وہ دھرا رہ گیا
دکھایا مقدر نے کیسا کڑا رُخ
راہِ محبت میں بس اِک موڑ تھا
بدل نہ سکے ہم یہیں اپنا رُخ
ٹِکا نہ رُخِ آفتاب جسکے آگے
میں کیا ہوں اور کیا میرا رُخ
صورت اُن کا بدلے زمانہ ہوا
میرا کہ اب بھی وہی پرانا رُخ
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549