غالب ؔ اور اقبالؔ کی اردو غزلیات کا ایک منفردتقابلی مطالعہ جائزہ

ایس حسن انظرؔ
مرزا غالبؔ کو انسیویں صدی کا اور ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال کو اب بیسویں صدی عیسوی کا اہم ترین شاعر ماناجاتا ہےاور ان دونوں پر جو مختلف قسم کی کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں اُن کو بالترتیب غالنیات اور اقبالیات کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔محققین و ناقدین نے جہاں اُن مقتدر شعراء کی شاعری پر بھی کسی قدر لکھا ہے وہیں زیادہ تر انکے سوانحی حالات،معاصرشعراء و ادباء وغیرہ کے ساتھ اُن کے مختلف النوع تعلقات ،مذہبی ،متصوفیانہاور فلسفیانہ افکار وغیرہ پر ہی لکھا جاتا رہا ہے۔اقبالؔ کو تو اردوکے ایک شاعر سے بھی زیزدہ اہمیت اسی لئے دی جاتی رہی ہے کہ وہ بعض لوگوں کے نزدیک قیام پاکستان کے پیچھے کام کرنے والے اہم ترین نظریہ ساز بھی تھے۔حکومت پاکستان نے اپنے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ کئی دیگر مسلم ممالکمیں بھی اقبالؔ اور اقبالیات کی تشہیر و تحقیق کے لئے ادارے قائم کئے ہیںاور ان کے لئے رقومات خطیر بھی خرچ ہوئے ہیں۔ان ذخائر ِ کتب پر محققانہ انداز سے نظر ڈالنے کے بعد بابا غلام شاہ بادشاہ یونیور سٹی راجوری کے ایک بے حد تازہ دم اور پُر عزم اسستنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد آصفملک نے محسوس کیا کہ تاحال غالبؔ و اقبالؔ کی اردو شاعری کے حوالے سے فکری ،عروضی اور اسلوبیاتی تقابل اور تجزیہ کا کما حقہ کام نہیں ہوپایا ہے،پس اسی ضرورت کے پیش نظر نہایت عرق ریزی کے ساتھ لکھنا شروع کیا۔نتیجے کے طور پر زیر نظر کتاب’’غالبؔ اور اقبالؔ کے فکری ،عروضی اور اسلوبیاتی نقوش : تجزیاتی تقابل ‘‘لکھ ڈالی،جو غالبؔ اور اقبالؔ کے حوالے سے اردو ادب کی پوری تاریخ میں ایک بے حد اہم،انوکھی اور قابل توجہ تصنیف کا درجہ رکھتی ہے ۔زیر نظر کتاب لکھنے کے لئے جو صلاحیت اور حوصلہ درکار تھا وہ ہر کسی نام نہاد ماہرِ اقبال کے پاس ہو ہی نہیں سکتا ۔عام طور پر تو یہی دیکھاگیا ہے کہ کوئی ادب نوازجب غالبؔ اور اقبالؔ پر لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بہ یک وقت اردو،فارسی اور انگریزی زبانوں پر یکساںدسترس نہیں رکھتا ہے سو ان کی شاعری کی تسہیل و تحسین میں دِقتیں پاتا ہے ،اب اگر یہ تینوں زبانیں اُس کے لئے مایوس بھی ہیں تو بھی وہ تصوف ،الٰہیات ،اسلامیاتاور مغربی فکرو فلسفہ کی بہ یک وقت کافی علمیت سے عاری ہوتا ہے اور نتیجتاً کہیں نہ کہیں پر لڑکھڑاتا ہے۔اُن کے برعکس ہمارے زیر بحث مصنف ان معدودے چند محققین و شارحین ادب میں سے ہیں جو ان دو عظیم اور کثیرالجہات شعراء و مذہبی مفکرین پر مہارت کے ساتھ قلم اٹھانے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد آصف ملک علیمی اردو زبان و ادب میں پی ایچ دی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالم دین اور عالمی سطح کے فکرو فلسفہ اور الٰہیات وغیرہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مقالات میں اکثر ناقدین کی طرح محض شعر شناسی اور ادبی محاسن پر آدھی ادھوری بات نہیں ملتی بلکہ فکری پس منظر کے تجزیے کے ساتھ ساتھ لسانیاتی مطالعات بھی نظر آتے ہیں،عروضی پہلوئوں پر ماہرانہ انداز سے روشنی ڈالنےکے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی تجزیہ و محاکمہ بھی ملتا ہے۔یہی ان کے زیر نظر کتاب کو منفرد بھی بناتا ہےاور کار آمد بھی۔انہوں نے اس کتاب سے پہلے بھی کچھ اسی نوع کی کئی کتابیں منظر عام پر لائی ہیں۔مثلاً ’’غالبؔ اور لسانیاتی وضع متن و معنی اور شعری نظام‘‘(۲۰۱۵ء)اور ’’اقبال کی شعری لسانیات‘‘(۲۰۱۷)اور اب اندونوں مقتدر شعراء کا باہمی تقابلی مطالعہ و تجزیہ گویا اُن کی اولین کوششوںکی اگلی کڑی۔
غالبؔ اور اقبالؔ کی غزل گوئی کا تقابلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ملک نے جہاںمغربی تنقیدی نظریات اور خاص طور سے ساختیات ،پس ساختیات،رد تشکیل یا دریدائیت اور مابعد جدیدیت کی فکری اتفراتفری کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا ہے تاہم دیگر ناقدین کی طرح ان خارجی یا پرائے افکار و طرائقپر بہت زیادہ تقیہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ہے اور بجا طور پر مشرقی شعریار کی روشنی مین اپناکارنامہ انجام دیا ہے۔ان کو بخوبی علم ہے کہ مغربی اقوام کے برعکس اقوام میں تاحال بہر صورت خد ا پرستی اور مذہبیت کا ہی وطیرہ حاوی رہا ہےاور یقیناً مستقبل میں بھی الحا د و زندیقیت اور کفرو بطلان کا بول بالا نہیں ہوگا۔اسی وجہ سے مشرقی زبانوں میں پنپنے والا شعر و ادب بھی خدا پرستی کی اساس پر ہی قائم رہے گا۔عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کی آمیزش سے تیار ہونے والی مشرقی شعریات کے عملی انطباق کے مظہر غالبؔو اقبالؔ وغیرہ کی شاعری پر بھی اسی لئے انہی زبانوں اور اسی مشرقی شعریات کے مطابقہی نقد و حکم لگانا جائز اور مستحسن بھی تھا ۔اسلوبیاتی نقوش پر مغربی مفکرین و ناقدین کے مطابق بھی فکری پس منظر اور تہذیبی روایات کے گہرے اثرات ہوتے ہی ہیں اور ڈاکٹر ملک نے اس معاملے کو بخوبی سمجھنے پر ہی بہ یک وقت غالبؔ و اقبالؔ کی غزلوں میں فکری اور اسلوبیاتی نقوش کی یگانگت اور کہیں کہیں پر مغائرت کو بھی اچھی طرح سے سامنے لایا ہے۔
اس کتاب کو چھ نقوش (یا ابواب) مین منقسم کیا گیا ہے ۔پہلا نقش غالبؔ اوراقبالؔ کے فکری پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہے تو دوسرے باب میں ان دونوں کے عروضیاور ترکیبی سانچے دکھلائے گئے ہیں۔پھر اسی طرح سے دیگر ابواب میں صرفیات،نحویات ،محاوراتی برتائو،الوبیاتی امتیازات ،لب و لہجے اور ااہنگ و اوزان جیسے مختلف پہلوئوں پر عالمانہ و ماہرانہ گفتگوملتی ہےجو سب غالبؔ و اقبالؔ کے عام چاہنے والوں کی دل چسپی کو ہی بڑھانے میں کام نہیں اائے گا بلکہ اردو ادب کے سنجیدہ طلباء کی تعلیمی ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا۔یہ تنقیدی و تحقیقی کام عام حالتوں میں اکثر قارئین کے لئے خشک سا ثابت ہوسکتا تھا مگر ڈاکٹر ملک چونکہ خود بھی نہ صرف ادب کے دلدادہ بلکہ ایک بہت ہی لظیف شاعرانہ طبیعت کے مالک اور شاعربھی ہیں،اس لئے پوری کتاب  پُر لطف اور چاشنی بھری بھی محسوس ہوتی ہے۔مصنف نے تاحال غالبؔ و اقبالؔ کی صرف اردو غزلیہ شاعری ہی کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ آئندہ اُن کے بقیہ کلام پر بھی کچھ ایسا ہی لکھیں گے۔
اب آئیے مُسنف کے تقابلی تجزیے کی کچھ مثالیں بھی دیکھتے چلیں۔مثال کے طور پر ہم سب سے پہلے نقش چہارم (یا چوتھے باب)میں زیر بحث لائے گئے غالبؔ و اقبالؔ کے نحویات سے تخلیقی شعری تعبیر تک کے وطیرے کو دیکھتے ہیں۔مُصنف نے دونوں کے اشعار میں ژولیدہ بیانی کی چھان پھٹک کرنے کے بعد غالبؔ کے تین اشعار درج کئے ہیں۔  ؎
۱۔   قید میں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
    لیکن آنکھیں روزن دیوار ِ زنداں ہوگئیں
۲۔   اُبھر ا ہوا نقاب میں ہے اُن کے ایک تار
    مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
۳۔  سایہ میرا مجھ سے مچل دور بھاگے ہے اسد
      پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
تینوں اشعار کو رواں ترتیب و ترکیب سے پیش کرنے کی صورتیں بھی اپنے طور پر پیش کی ہیںجن کے مطابق پہلا شعر کچھ یوں لکھا ہے ۔ ؎
گو یعقوب نے قید میں یوسف کی خبر نہ لی
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زندان ہوگئیں
لیکن پھر خود ہی یہ بھی کہہ دیتے کہ الفاظ کے اُلٹ پھیر یا تاخیر و تقدم والی رولیدہ بیانی نہ ہوتی تو پھر غالبؔ غالبانہ نہ رہتے۔اس کے برعکس اقبالؔ طبعاً ژولیدہ بیانی کو پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا ان کے کلام میں اس طرح کے اشعار نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔
فارسی ترکیب سازی کے امتیازات پر بات کرتے ہوئے مصنف بتلاتے ہیں کہ غالبؔ نے اپنے بیان کے لئے فارسی تراکیب ِ اضافی اور توالی اضافات اختراع کی ہیں تو اقبالؔ بھی اپنے بیان اور پیغام کے لئے ان تراکیب کے برتائو میں تخلیقی عمل سے گذرے ہیں۔۔۔۔۔اور ترکیب سازی کی کثرت میں اقبالؔ ،غالبؔسے پھر دو قدم آگے بھی نکل گئے ہیں۔اگلے باب میں ان دونوں شعراء کے یہاں محاوراتی برتائو کی انفرادیت پر گفتگو کی گئی ہے۔مناسب اشعار کو مثال کے طور پر پیش کرکے بتلایا گیا ہے کہ جہاں غالبؔ نے محاوراتی لسانی اکائیوں کو محض محاوراتی معنی سے شعری تخلیقی معانی اور تعبیت تک لایا ہے وہیں اقبالؔ ایسا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتے۔
رابطہ۔بمنہ سرینگر،کشمیر