یاسر بشیر
اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی۔تخلیق کائنات کے بعدا ﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دیا بلکہ ﷲ تعالیٰ خود اس کائنات کا منتظم رہا۔خود ہی اﷲ رب العزت اس کائنات کا نظام چلاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ مدبر بلا وزیر ہے۔کائنات کے اس نظام میں ایک نظم چاند کا گھٹنا بڑھنا ہے۔چاند کے گھٹنے بڑھنے سے ہم قمری مہینوں کے تاریخ متعین کرسکتے ہیں۔جس طرح انگریزی مہینوں کا تاریخ بارہ(12) ہے,اسی طرح قمری مہینوں کا تاریخ بھی بارہ(12)ہے۔ان ہی مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک ہے جو کہ اس ہجری سال میں وداع چاہتا ہے۔رمضان المبارک کے بعد شوال کا مہینہ آتا ہے جو کہ ہجری سال کا دسواں مہینہ ہے۔شوال کے پہلے تاریخ کو مسلم دنیا خوشی کے دن کے طور پر مناتے ہیں جسے عید الفطر کہتے ہیں۔ہر کسی کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ بازاروں میں رونق لوٹے گی ،گھروں میں خوشی ہوگی وغیرہ۔مگر اس کے برعکس ہمارے سامنے ہے کہ عید کے موقعے پر گھروں میں کئی پکوان ہوتے ہیں،خوشی کی صورت میں نماز عید ادا کرتے ہیں۔بچوں کو عیدی ملتی ہے اور بچے خوشی میں محو ہوجاتے ہیں۔چونکہ ہمیں یہ دن کسی لادین یا دین باطل کی طرف سے نہیں ملا ہے بلکہ یہ دن ہمیں دین اسلام کے ذریعے ملا ہے۔اس لئے اس دن کو منانے کے لئے ہمیں وہی طریق کار اختیار کرنا چاہئے جو طریقہ کار ہمیں دین اسلام بتاتا ہے۔اگر ہم اس دن کو دین اسلام کے بتائیے ہوئے طریقہ کار کو چھوڑ کر منائے تو پھر یہ ہمارے لئے خوشی نہیں بلکہ غم کا دن ہے کیونکہ پھر اس سے ہماری عاقبت خراب ہوجائے گی۔
عید ہمارے درمیان ہر سال آتی ہے اور وہ بھی دوبار۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی خوشی ہوتی ہے یا کوئی مذہبی تہوار ہوتا ہے تو اس دن گھروں میں کئی طرح کے کھانے بنائے جاتے ہیں۔اسی طرح مسلمانوں میں بھی یہ رواج عام ہوا ہے۔مگر جب ہم موجودہ حالات پر غور کریں گے تو ہم یہی کہیں گے کہ اس عید کے موقع پر قناعت سے کام لینی ہے۔ اس عید میں ہمیں ان لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے جو اس وقت بھی مہلک وبائی مرض میں مبتلا ہیں۔
اگر ہم اپنی اس وادی کی جانب نظر پھیریں گے تو ہمیں وہ یتیم بچے نظر آئیں گے، ہمیں وہ مائیں نظر آئیں گی، جن کے لخت ہائے جگر اپنی جوانی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ہمیں وہ مائیں نظر آئیں گی جو عرصۂ دراز سے اپنے لخت جگروں کے انتظار میں ہیں۔ہم اُن ماوں کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گے،جب وہ مائیں ہمیں کہیں گی کہ ہمارے گھروں میں ماتم تھا اور آپ خوشیاں منارہے تھے۔ہمیں اُن ماوں اور بہنوں کو اس عید کی خوشی میں یاد رکھنا چاہئے۔ حال ہی میں ہم نے فلسطین میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا،وہاں بھی کتنے گھروں میں ماتم ہے۔ہمارے قبلہ اول کی حالت کیا ہے اور ہم کن فضولیات میں محو ہیں۔کیا ہم یہ کہنے کے حقدار ہے کہ اُمت ایک جسد واحد ہے۔اُجڑے ہوئے گھروں میں عید نہیں ہوتی ہے بلکہ وہاں غم و آلام ہوتے ہیں۔ہمیں ان گھروں کی فکر ہونی چاہئےجو ہمیں ہے ہی نہیں۔ہماری اس وادی میں اُن بچوں کی کافی تعداد ہے جو عید کے دن ترستے رہتے ہیں کہ کاش ہمارا بھی ’’ابو‘‘ہوتا تو ہمیں بھی خوشی ہوتی۔اسی طرح بے شمار مائیں اور بہنیں ہیں جو اپنے لخت ِ جگروں اور بھائیوں کی جدائیوں سے نڈھال ہیںاور عید کے موقعوں پر اُن کی کمی محسوس کرتی ہیں۔جس کے نتیجے میںاُن گھروں میں عید کے دن بھی ماتم کی کیفیت ہوتی ہے کیونکہ ان کو اپنے پیاروں کی یاد عید کے دن زیادہ ستاتی ہے۔عید کے موقع پر ہمیں لوگ فضول خرچی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اُن کو یہ یاد رکھناچاہئے کہ ہماری وادی میں وہ لوگ بھی موجود ہے جن کو کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ اُن لوگوں کو اِس خوشی میں یاد رکھیں۔جس قوم کے لوگوں کو ان حالات میں بھی محض کھانے پینے کی ہی فکر رہتی ہو،اس قوم کا مستقبل ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتاکہ ہمارے ملک میں،ہمارے شہر یا قصبہ میں لوگوں کو مکمل طور پر بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں۔ ہمیں اپنے ضمیر کو حس دلانا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا تھا اور ہم کیا کررہے ہیں۔
عید منانے سے پہلے یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا لازمی ہے۔اگر ہم عید پر ایک ہزار خرچ کرتے تھے، ہمیں چا ہئے کہ پانچ سو ہی خرچ کریں۔اگر ہم نبی اکرمؐ کی سیرت دیکھیں گے تو ہمیں عید منانے کا صحیح طریقہ نظر آجائے گا ۔ اپنے بچوں کا فضولیات سے دور رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔جو کام اسلام نے حرام کئے ہیں،اُن سے بچوں کو دور رکھنا چاہئے۔اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو ہماری وجہ سے یتیم بچوں کے دل مزید مجروح ہوتے رہیں گے،جس کی وجہ سے ہم اللہ کے سامنے مجرم ٹھہریں گے۔
آخر پر میں یہی کہوں گا کہ ہمیں عید کے خوشی کے موقع پر اُن فضولیات و خرافات سے بچنا چاہئے جن سے ہمیں اسلام روکتا ہے۔اور اُن باتوں پر عمل کرنا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ا ﷲ سے دعا ہے کہ یہ عید پورے دنیا کے لئے امن کا پیغام کا باعث بنیں۔
)ایسو شانگس اسلام آباد،فون9149897428)
[email protected]>