سیّد آصف رضا،ناربل بڈگام
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتیں عطا فرمائیں ہیں جن کا شمار کرنا ناممکن ہے۔ اس بات کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے۔‘‘ (النحل: ۱۸)۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ دی گئی نعمتوں پر شکر بجا لانے کی تلقین اس طرح فرماتا ہے: ’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘(ابراہیم: ۷) ۔اسی طرح رب کائنات اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کے تذکرہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ چنانچہ سورہ ضحیٰ میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اوراپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔‘‘
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر اہلِ ایمان کو خوشیاں منانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: ’’فرما دیجیے:(یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدیؐ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘ (یونس: ۵۸)
علامہ اشرف علی تھانویؒ آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’پس اس تفسیر کی بناء پر حاصل آیت کا یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور ؐ کے وجود باجود پر خواہ وجود نوری ہو یا ولادت ظاہری اس پرخوش ہونا ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ حضورؐ ہمارے لئے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ حتیٰ کہ ہم کو جو روٹیاں دو وقتہ مل رہی ہیں اور عافیت اور تندرستی اور ہمارے علوم یہ سب حضورؐ کی ہی کی بدولت ہیں اور یہ نعمتیں تو وہ ہیں جو عام ہیں اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضورؐ سے ہم کو پہنچنابالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضورؐ کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پرجس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔ بہرحال اس آیت سے عمومًا یا خصوصًا یہ ثابت ہوا کہ اس نعمتِ عظیمہ پر خوش ہونا چاہیے اور ثابت بھی ہوا نہایت ابلغ طرز سے۔ یعنی یہ نعمت ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن کو لوگ جمع کرتے ہیں۔ یعنی دنیا بھر کی نعمتوں سے یہ نعمت افضل و بہتر ہے پس جس نعمت پر حق تعالیٰ اس شد و مد کے ساتھ خوش ہونے کا حکم فرما دیں وہ کس طرح خوش ہونے کے قابل نہ ہوگی؟ یہ حاصل ہوا اس آیت کا جو مبنی ہے اس پر کہ فضل اور رحمت سے حضورؐ مراد لئے جائیں۔‘‘(خطبات میلاد النبیؐ، صفحہ: ۴۶)علامہ سید محمد اشرف اندرابی صاحبؒ آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’ سو جب اللہ تعالیٰ کی ہر عنایت و رحمت پر فرحت و مسرت کا اظہار انسانی فطرت ہے اور خود حق تعالیٰ نے اپنے فضل خاص اور رحمت پر فرحت و مسرت کا اظہار کرنے کا حکم دیا ہے تو سید العالمینؐ کی ذات اقدس سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی اپنی مخلوق کیلئے کون سی نعمت و رحمت ہے۔ وہ ذات والاؐ جسے اللہ جل شانہٗ نے رحمۃً للعالمین بنایا ہے تمام جہانوں کیلئے بالعموم اور اہل ایمان کے لئے بالخصوص مالک الملک رب العالمین کی سب سے عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت عظمیٰ کے ظہور قدسی کے روز سعید سے بڑھ کر کوئی عید ہو سکتی ہے؟ اس عید کو بدعت ضلالت، جس کا انجام جہنم کی آگ ہے (العیاذ باللہ)، وہی کہہ سکتا ہے جس کا دل ایمان تو کیا شرافت انسانی کے جذبہ سے بھی خالی ہو۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اپنی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ (آمین)۔‘‘(مقالات اندرابی، صفحہ: ۴۴۱)
کائنات میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت جو ہمیں عطا ہوئی وہ ذاتِ مقدّس نبی آخرالزمان ؐ ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ سورۃ المائدہ آیت ۳ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شرعی اور اصطلاحی عید تو صرف عید الفطر اور عید الاضحی ہیں اور یوم عرفہ اور یوم جمعہ عرفًا عید ہیں اور جس دن کوئی نعمت اور خوشی حاصل ہو وہ بھی عرفًا عید کا دن ہے اور تمام نعمتوں کی اصل سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی ہے۔ سو جس دن یہ عظیم نعمت حاصل ہوئی، وہ تمام عیدوں سے بڑھ کر عید ہے اور یہ بھی عرفًا عید ہے، شرعًا عید نہیں ہے، اس لیے مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی ؐ کی ولادت کے دن بارہ ربیع الاوّل کو عید میلاد النبیؐ مناتے ہیں۔‘‘(تبیان القرآن، جلد سوم، صفحہ: ۸۶)میلاد شریف کے تعلق سے ہماری ذمہ داری: برصغیر کے مشہور و معروف عالمِ دین اور انجمن تبلیغ الاسلام جموں و کشمیر کے سابق صدر امیر
شریعت علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاری صاحبؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب:۱۲) (فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہؐ کی ذات مقدسہ) میں نہایت ہی حسین نمونہ ٔ (حیات) ہے)۔ پس سچا مسلمان بننے کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرتؐ کا اُسوہ ٔ حسنہ پیشِ نظر ہو اور ہم اسی کی اتباع کریں۔ یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ آنحضور ؐ کی سیرتِ پاک سے ہم واقف نہ ہوں۔ مسلمانوں کو اسلام پر قائم رہنے کے لئے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنے ہادی برحقؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور اس کو اپنے کاموں میں پیشِ نظر رکھیں۔ اسی خیال کے بناء پر ہم نے سالہا سال سے ان درگاہوں، خانقاہوں، کالجوں اور مختلف درسگاہوں میں ربیع الاوّل شریف کے موقع پر بیان سیرت کی بناء ڈالی۔ ربیع الاوّل کی پہلی بارہ راتوں میں علیٰ سبیل التسلل حضرت نبی بر حق ؐ کی ولادت باسعادت سے لے کر وصال مبارک تک کے واقعات معتبر روایتوں اور تاریخوں سے لے کر بیان کرتے ہوں۔ بحمد للہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ میں نے اپنے دوستوں اور شاگردوں کو وصیت کر دی ہے کہ اس مبارک سلسلے کو بڑی پابندی سے جاری رکھیں۔ میری دلی تمنا ہے کہ کشمیر کے طول و عرض کی تمام خانقاہوں، زیارت گاہوں، کالجوں اور باقی علمی اداروں میں ربیع الاّول شریف کے موقع پر سیرت کا بیان جاری ہو جائے، یعنی عام فہم لفظوں میں معتبر کتابوں سے سیرت مطہرہ کے واقعات اخذ کرکے بیان کئے جائیں اور عوام کو گویا سبقاً سبقاً سیرت رسولؐ سے آگاہ کیا جائے، تھوڑا تھوڑا ہر روز بیان کیا جائے اور دس بارہ دن میں ولادت مبارکہ سے وصال مبارک تک کے سب واقعات بیان کر دئیے جائیں۔ نیز مجالس سیرت میں صلوٰۃ و سلام کی کثرت رکھی جائے اور مسلمانوں کے دلوں میں ذوق و شوق اور عشقِ رسولؐ پیدا کیا جائے۔‘‘
اگر اسی داعیانہ تڑپ کو لے کر دور حاضر کے مفتیان کرام اور واعظین حضرات عوام تک پیغام محمدیؐ پہنچائیں تو مسلمانوں میں آپسی اتحاد و اتفاق کی راہیں کھلی گی۔یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا جس کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم طرح طرح کے مصیبتوں میں مبتلا ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ آئیے اس میلادکے دن ہم عہد کریں کہ عشقِ مصطفیٰ ؐ سے لیس ہو کر اسلام کے داعی بنیں گے۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
ہر کہ عشق مصطفیٰؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہِ دامان اوست
[email protected]